کابل کی سڑکوں پہ گھومتے ہوئے بظاہر ہر چیز معمول کے مطابق دکھائی دیتی ہے۔ بازاروں میں رش ہے ، روزمرہ استعمال کی اشیا خریدی اور بیچی جا رہی ہیں ۔ ٹیکسی والے قطار میں کھڑے ہیں ، سواریاں ایک مقام سے دوسرے کی جانب رواں دواں ہیں۔ ٹریفک اکثر جام رہتا ہے ، پارکنگ ڈھونڈنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شام کے اوقات میں شنواری ریسٹورانٹس میں کہیں کڑاہیاں بن رہی ہیں ،توکہیںسجیاں تیار کی جارہی ہیں۔ فاسٹ فوڈ کی دکانوں پر شوارمے اور برگر خریدے اور کھائے جا رہے ہیں ۔جوس کارنرز پر بھی چاررنگی روشنیاں جگمگا رہی ہیں ۔ ٹھیلوں والے آوازیں لگا لگا کر اپنا مال بیچ رہے ہیں ۔ بظاہر سب ٹھیک ٹھاک معلوم ہوتا ہے جیسے تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والا دوسرے درجے کا کوئی شہر معمول کے مطابق چل رہا ہوں۔ لیکن باریک بینی سے دیکھیں تو سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے۔ خرابیاں ہیں اور مہلک ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بینکوں کے باہر لگی بھیڑ میں دکھائی دیتا ہے۔ سورج نکلتے ہی بینکوں کے باہر لمبی لمبی لائینیں لگتی ہیں جو آٹھ بجے تک بھیڑ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔وجہ یہ ہے کہ بینکوں کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے ایک ہفتے میں بیس ہزار افغانی سے زیادہ نہ نکلوانے کی پابندی لگا دی ہے۔ یعنی افغان شہریوں کی اپنے ہی پیسوں تک رسائی نہایت مشکل اور محدود ہو گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کے دل کا ایک آپریشن ہونا ہے اوراسے دو لاکھ روپوں کی ضرورت ہے تو وہ امیر ہونے کے باوجود اپنا علاج نہیں کرا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اپنی رقم کے حصول کے معاملے میں لوگ افراتفری کا شکار ہو گئے ہیں۔ بینکوں پر لوگوں کا اعتماد کم ہو رہا ہے، لہذا پیسے نکلوائے تو جا رہے ہیں مگرکوئی بھی بینک میں رقم جمع نہیں کرا رہا۔ پیسے کیش کی صورت میں جیب میں نہ ہونے کے باعث الیکٹرانک مارکیٹس ویران پڑی ہیں ، لوگ نہایت ضرورت کی اشیا ہی خرید رہے ہیں ، اس کے نتیجے میں کئی قسم کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ ایک درمیانے درجے کے شنواری ہوٹل کے مالک سے بات ہوئی تو کہنے لگا پہلے دس بکرے روزانہ بیچ لیتا تھا اب بمشکل ایک بکتا ہے ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا لوگوں کے پاس کیش نہیں ہے ۔ ایک مسئلہ اور بھی ہے ، زیادہ تر ممالک کے سفارت خانے فعال نہیں ہیں ۔ائیر پورٹ کا نظام بھی بحال نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے افغانستان آنے اور جانے والے افراد پھنس کے رہ گئے ہیں۔ ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی جس کے پاس ہالینڈ کا ویزہ تھا ، اس کا سمیسٹر شروع ہو چکا ہے مگربین الاقوامی سفر کی سہولت نہ ہونے کے باعث وہ اپنی کلاس جوائن نہیں کر سکتا اور اس کی سمیسٹر فیس ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ ایک شخص مجھے وزارت اطلاعات کے دفتر کے پاس ملا ،ہمراہ بیس سالہ بیٹا بھی تھا۔ ہر ایک کو روک روک کے اپنی کہانی سناتا تھا ، مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میرے بیٹے کے پھیپھڑوں میں پانی پڑ چکا ہے ، منہ سے خون آتاہے ،ڈاکٹرز نے کہا ہے کسی دوسرے ملک لے جائو یہاں علاج نہیں ہے۔ روتے روتے کہنے لگا کہ میرے بیٹے کے علاج کے لیے مجھے کسی ملک کا ویزہ لگوا دیں میرے پاس پیسے بھی ہیں اور پاسپورٹ بھی، مجھے صرف ویزہ چاہیے۔ ایسی کئی کہانیاں کابل میں جا بجا نظر آتی ہے۔ائیر پورٹ کا نظام مکمل طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے کرنسی ایکسچینج کے کاروبار سے وابستہ ہزاروں افراد بھی مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ تمام مسائل کی جڑ حکومت کے پاس پیسوں کا نہ ہونا ہے ۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اپنی شکست کا بدلہ افغانستان میں انسانی المیے پیدا کر کے لے رہا ہے۔ انسانی حقوق کا رونا روتا ہے ، افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے پریشان نظر آتا ہے ، درحقیقت بے شمار خواتین کے حقوق سلب ہوجانے کی خود ہی وجہ ہے۔ کیسے ممکن ہے امریکہ کے علم میں نہ ہو امداد روکنے اور اثاثے منجمد کر دینے کے نتیجے میں لاکھوں خواتین اور بچوں کی زندگیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ آپ کابل کے پارکوں میں چلے جائیے ۔ بیمار، حاملہ اور بزرگ خواتین بچوں کو لیے بے یارو مدد گار بیٹھی ہیں ۔ کوئی ہرات سے آیا ہے ، کوئی قندوز سے تو کوئی ہلمند سے۔ جنگ زدہ علاقوں میں اپنے گھر بارلٹا کر یہاں مہاجر بنے بیٹھے ہیں ، کھانے کے پیسے ہیں نہ واپس جانے کے ، مردوں کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ،خوفناک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ کوئی کھانا وہاںلے آئے تو لوگ چھیننے لگتے ہیں ۔ حکومت کے پاس پیسے نہیں کہ ان کی مدد کر سکے ،ہزاروں لوگوں کو پیٹ کے لالے پڑے ہیں ، امریکہ کو فکر ہیں لڑکیاں کرکٹ کھیلیں گی یا نہیں۔جب اپنی رعایا کا پیٹ بھرنے کے پیسے نہ ہوں تو لڑکیوںکا کرکٹ کھیلنا یا پی ایچ ڈی کرنا لازمی طور پر کسی بھی حکومت کی ترجیحی فہرست میں نیچے چلا جائے گا جیسا کہ یہاں ہوا ہے۔ رات دس بجے ایک خاتون سے سڑک کنارے ملاقات ہوئی ، اپنے تین بچوں کے ساتھ بے یارو مدد گار پڑی تھی،بیٹیاں سولہ اور بیس سال کی تھیں ،بیٹا بارہ برس کا ۔بیوہ تھی مگر خوشحال خاندان سے تھی ،شوہر پچھلی جنگ میں مارا گیا تھا اس لیے خوفزدہ تھی ، ہرات میں کشیدگی ہوئی تو بچوں کی جان بچانے کیلئے راتوں رات کابل کی طرف دوڑی ، اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا چولہا اور دو تین برتن اٹھا رکھے تھے۔ ہمیں بتانے لگی کہ خوشحال خاندان سے ہوں ، کسی سے بھیک نہیں مانگ سکتی مگر بچوں نے کچرے کے ڈبے سے خالی بوتلیں اکٹھی کر کے بیچی ہیں تو یہ آلو خریدے ہیں جنہیں اب ابال کے کھائیں گے۔ ممتاز بنگش نے کہا کوئی اکاونٹ نمبر ہے تو بتائیں آپ کی مدد کرا دیں ، کہنے لگی سب کچھ ہے مگر ہرات میں ہے،زبانی ہمیں کچھ یاد نہیں۔ کابل میں غربت حدوں کو چھو رہی ہے ، فقیر دو دو کلو میٹر تک ساتھ چلتے ہیں، منع کرنے کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑتے۔ دیکھنے میں اچھے بھلے لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ، انہیں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی کام دھندا کیوں نہیں کرتے ، کوئی کام دے تو کریں ناں ،نوکریاں دینے والوں کا پیسہ تو بینکوں میں بلاک پڑا ہے۔ نئی حکومت کے سامنے چیلنجز کا انبار لگا ہے ، تھانوں، عدالتوں اور جیلوں کا نظام بحال کرنا ہے، یونیورسٹیاں چلانی ہیں ، خواتین کے سکول کالجز بنانے ہیں ،بے شمار کا م ہیں مگر سب سے پہلے افغانستان کے لیے عالمی طاقتوں کی بے حسی کا خاتمہ ضروری ہے ۔