یہ کس بنیاد پر الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کیا ان کی پارٹیوں میں جمہوریت ہے کیا ان کی پارٹیوں میں کارکنوں کا کوئی مقام ہے؟ اقتدار سے قبل کی پارٹی اور اقتدار کے بعد کی پارٹی میں زمین آسمان کا فرق آ جاتا ہے۔ اقتدار سے پہلے ان چہروں کا وجود تک نہیں ہوتا یا ماضی میں وہی چہرے اقتدار والی پارٹی کے شدید ناقد ہوتے ہیں اور بعد ازاں وہی چہرے حکومت چلا رہے ہوتے ہیں۔ حوصلہ ہے ان سے چمٹے ہوئے کارکنوں کا جو یہ کھلا تضاد برداشت کر لیتے ہیں سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی طرف آتے ہیں جس کی بنیاد 30 نومبر 1976ء کو ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں رکھی۔ 55 سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے بظاہر یہ پارٹی نچلے اور پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کے لیے بنائی گئی جس کے بنیادی مقاصد میں عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا طے ہوا۔ سوشلزم ان کا نعرہ تھاپیلز پارٹی قیام پاکستان کے بعد سب سے مقبول جماعت بن کر ابھری تھی۔ ذولفقار علی بھٹو کا مخصوص عوامی انداز اس پارٹی کے مقبولیت کا سبب بنا اور بلاشبہ انہوں نے بے شمار کام کیے جن کی ضرورت قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو چکی تھی مگر بدقسمتی سے چند عالمی مسائل میں بھٹو صاحب کی خصوصی دلچسپی اور چھیڑ چھاڑ نہ صرف ان کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنی بلکہ ان کو موت کی سزا بھی اسی جرم میں ہوئی۔بھٹو کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی نے بڑی طویل قربانیاں دیں مقدمات سزائیں اور بڑا جبر برداشت کیا۔ پھر بے نظیر بھٹو صاحبہ میدان میں اتریں کارکنوں میں ایک نئی امید پیدا ہوئی اور بے نظیر بھٹو صاحبہ نے کافی حد تک کارکنوں سے رابطہ بحال بھی رکھا۔ صرف 18 ماہ بعد ہی ان کی حکومت ختم کر دی گئی پھر اقتدار میں آئیں مگر کارکنوں تک رسائی ناممکن بنا دی گئی پھر بھی کافی حد تک کارکنوں سے رابطہ رکھتی تھیں مگر بدقسمتی سے راولپنڈی میں ناگہانی موت کا شکار ہو گئیں اور پارٹی زرداری صاحب کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے سب سے پہلے کارکنوں سے جان چھڑائی اور محفوظ راستوں سے اقتدار میں آنے کا طریقہ ایجاد فرمایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی اس وقت صرف سندھ تک محدود ہو کررہ گئی اس کے بعد دوسری بڑی پارٹی پنجاب سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت میاں نواز شریف نے 1993ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے نام سے بنائی جو بظاہر اینٹی پیپلز پارٹی کے نظریے کی بنیاد پر بنی چونکہ مسلم لیگ کے نام کی اس وقت بھی پارٹیاں موجود تھیں تاجروں میں یہ پارٹی بہت مقبول ہوئی۔ بلاشبہ کراچی سے خیبر تک میاں نواز شریف نے اس پارٹی کے لیے دن رات ایک کر دیا بہت ہی سرکردہ شخصیات اس پارٹی کا حصہ بنیں خصوصاً پنجاب کے نوجوانوں نے ان سے بہت امیدیں وابستہ کر لیں ان کا بنیادی نعرہ جدید ترقی یافتہ پاکستان تھا۔ موٹروے پروجیکٹ میٹرو سروسز وغیرہ مگر ایک کاروباری شخصیت ہوتے ہوئے انڈسٹری کی بحالی میں کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔ مقتدرہ سے ان کی کبھی نہ بن سکی۔ آصف علی زرداری کی طرح انہوں نے بھی کارکنوں کے لیے کچھ بھی نہ کیا حتی کہ رابطہ تک رکھنابھی مناسب سمجھا۔ ایک مخصوص طبقہ ہی ان کی پارٹی پر قابض رہا۔ ان کی جلاوطنیوں کی بھی طویل داستانیں ہیں۔ بدقسمتی سے اگر پارٹی کے کارکنوں سے گہرا رابطہ اور ان کی خبر رکھتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔یہ پارٹی بھی پنجاب تک محدود ہو گئی حالانکہ اس پارٹی کی قیادت نے قربانیاں دی ہیں تقریبا تمام مرکزی قیادت مقدمات اور اسیری برداشت کر چکی ہے۔ تیسری بڑی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد سابق کرکٹر عمران خان 1996ء رکھی بظاہر وہ اکیلے ہی تھے اور قومی اسمبلی میں ایک ممبر کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے ان کی پارٹی میں نوجوان طبقہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے بیزار لوگ بڑی سرعت رفتاری کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جلسے اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی شمولیت نے اسے امید کی ایک کرن بنا دیا اور آخر کار یہ اقتدار کی راہداریوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی پھر عجیب و غریب طبقہ اقتدار میں آگیا کارکن رل گئے پھر بھی سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے افسوس خان صاحب کے گرد ایک مخصوص لابی ہی گھومتی رہی اور آج یہی پارٹی بدقسمتی کی صورتحال سے دو چار ہے وہی لوگ انہیں چھوڑ گئے جو مرکزی عہدوں پر بیٹھے تھے اور اقتدار کا مزہ بھی لیتے رہے اور موجودہ صورتحال کے ذمہ دار بھی ہیں اور آج کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں اب اگر آپ ان تینوں پارٹیوں کا بغور جائزہ لیں تو سب سے بڑی وجہ صرف اقتدار کا حصول رہا ہے کسی ایک پارٹی نے بھی کارکنوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا صرف انہیں استعمال کیا اور اگر دوسری بڑی بدقسمتی دیکھیں تو بظاہر ایک دوسرے کے جانی مالی دشمن ہیں مگر جونہی اقتدار حاصل ہوتا ہے ایک مخصوص طبقہ آپ کو ان تینوں پارٹیوں میں بھی نظر آتا ہے یعنی ایک ساتھ اقتدار میں بھی یعنی نظریاتی سیاستب ھی۔ بظاہر دیکھا جائے تو تینوں پارٹیوں کے کارکن صرف استعمال ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے آج ہر پارٹی نے ایک ایک صوبہ سنبھال رکھا ہے اور بدقسمتی سے مرکزی حیثیت ختم ہو چکی ہے کارکن بیچارے یوں ہی آپس میں گالم گلوچ اور دست و گریباں ہوتے ہیں کسی ایک پارٹی کی تنظیم سازی کا منظم نظام دکھا دیں یا کارکنوں سے روابط کا ذریعہ ثابت کردیں۔ یہی ان کی بدقسمتی ہے بلکہ پاکستان کے جمہوری نظام کی بدقسمتی ہے۔ لیڈر اور کارکن کا رشتہ نظریات کی بنیاد پر ہوتا ہے جب نظریہ ہی اقتدار کا حصول ہو تو تباہی ہی ہو گی۔