قدرت اللہ شہاب ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں ہر کچھ عرصے کے بعد سوشل میڈیا میں چھوٹا موٹا طوفان اٹھتا رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی بانکا اٹھ کر شہاب صاحب یا ان کی خودنوشت شہاب نامہ پر اعتراض داغ دیتا ہے۔ صرف قدرت اللہ شہاب ہی نہیں بلکہ ان کے قریبی دوستوں ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ کے حوالے سے بھی یہ’’ چاندماری‘‘ چلتی رہتی ہے۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی شہاب نامہ کا آخری باب ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘دراصل بہت سے لوگوں کے بڑا درد سر ہے۔ اس میں تصوف کی بات کی گئی، صوفی ازم کا ایک ایسا تصور سامنے آیا جو ہمارے عقلیت پسندوں اور لبرل سیکولر حلقوں کے لئے بڑا تکلیف دہ ہے۔ وہی بات جس کا اکبر الٰہ آبادی نے اپنے شعر میں تذکرہ کیا تھاع رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا اصل قصور یہی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں خدا کا نام کیوں لیتے ہیں، صوفی ازم کی جھلک کیوں آتی ہے؟بانو آپا کے ناول راجہ گدھ پر صرف اس لئے تنقید ہوتی ہے کہ اس میں انہوں نے حرام اور حلال کے تصور کی بات کی اور لکھا کہ حرام کھانے سے انسانی جینز میں بھی فرق آجاتا ہے۔ یہ فکشن کی کتاب تھی ، کوئی سائنسی تھیوری نہیں جس پر کسی کو اتنی تکلیف ہوتی۔ یہ بات مگربہت سوں کے لئے حلق میں پھنسی ہڈی کی طرح چبھتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب اور ان کی کتاب شہاب نامہ کے حوالے سے ایک زمانے میں چند نکات لکھے تھے ، بعض ایسے حقائق اور باتیں جن کو جانے اور سمجھے بغیر شہاب صاحب پرتنقید بے وزن اور بیکار رہتی ہے۔ انہیں پھر سے لکھا ہے۔ نائنٹی ٹو نیوز کے قارئین کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔ سب سے پہلے شہاب صاحب کا مختصر تعارف: قدرت اللہ شہاب ملک کے معروف بیوروکریٹ رہے ہیں۔ وہ سول سروس افسر تھے، گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں ان کے سیکرٹری بنے، بعد میں سکندر مرزااور پھر صدر ایوب خان کے سیکرٹری رہے ، آج کے حساب سے پرنسپل سیکرٹری سمجھ لیجئے۔قدرت اللہ شہاب صاحب طرز افسانہ نگار بھی تھے،تقسیم کے تناظر میں لکھے گئے ان کے ناولٹ ’’یاخدا‘‘کو ادبی حلقوں میں بڑی پزیرائی ملی۔اپنی والدہ پر لکھا گیا ان کا خاکہ’’ ماں جی‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’شہاب نامہ‘‘ ان کی خود نوشت آپ بیتی ہے ، اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں. اس کتاب نے بے پناہ پزیرائی حاصل کی، اس پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔بعض ناقدین اسے طنزیہ طور پر آپ بیتی نہیں فکشن کہتے ہیں، شہاب صاحب کوبھی جعلی صوفی اور نجانے کیا کیا کچھ۔ حقیقت کیا ہے ،اسکا فیصلہ قارئین خود کریں، مگر ضروری ہے کہ نیچے دئیے گئے حقائق پہلے جان لیں 1: قدرت اللہ شہاب آئی سی ایس (انڈین سول سروس)افسر تھے۔ پاکستان میں سول سروس افسروں کی دو کلاس تھیں، ایک وہ جو پاکستان بننے کے بعد سول سروس میں بھرتی ہوئے، دوسرے وہ جو قیام پاکستان سے پہلے آئی سی ایس امتحان پاس کر کے سول سروس میں آ گئے تھے۔ آئی سی ایس افسرپاکستان میں ایک طرح سے بیوروکریسی کی اشرافیہ تھے، گورا صاحب سمجھ لیں۔ شہاب کو اچھی پوسٹنگ کے لئے حکمرانوں کی خوشامد کی ضرورت نہیں تھی، آئی سی ایس افسر تب بیوروکریسی کی کریم سمجھے جاتے تھے، بڑی پوسٹنگ ان کے لئے کوئی ایشو نہیں تھا۔ 2 :آئی سی ایس افسر ایک دوسرے کو بہت عزت اور سپورٹ دیتے تھے، انہیں ہمیشہ بہترین پوسٹنگ ملتی تھیں ، زمینیں وغیرہ الاٹ کرانے یا دیگر فوائد لینے ان کے لئے بہت آسان تھے۔ اس کے باوجود شہاب نے زندگی بھر کوئی زمین یا پلاٹ الاٹ نہیں کرایا، کوئی فیکٹر ی الاٹ کرائی نہ ہی پرمٹ لیا، کسی بھی قسم کا دھبہ ان کے دامن پر نہیں۔ 3 : آئی سی ایس کے اس امتیاز کے باوجود قدرت اللہ شہاب نہایت منکسر مزاج، ڈائون ٹو ارتھ، سادہ مزاج اور انتہائی دیانت دار ، شریف بیوروکریٹ کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے بہت سے ملنے والے یہ لکھ یا کہہ چکے ہیں کہ شہاب میں ذرا بھر بھی کروفر یا غرور نہیں تھا، بڑا سادہ لائف سٹائل تھا اور وہ ہر ایک کو عجز اور انکسار سے ملتے تھے۔سابق بیوروکریٹ مصنف اقبال دیوان کے بقول قدرت اللہ شہاب کراچی میں اپنے فلیٹ سے رکشہ میں (جسے کراچی والے پھٹپھٹی کہتے ہیں)گورنرجنرل ہائوس جاتے تھے، رکشہ کے شور سے ناہید سکندر مرزا کی آنکھ کھل جاتی اور وہ بدمزہ ہوتی۔ اس نے شہاب کو کہا کہ کار استعمال کرو، شہاب کا جواب تھا کہ میرا موجودہ گریڈ مجھے سرکاری کار کی سہولت نہیں دیتا۔ ناہید مرزا کی پیش کش کے باوجود شہاب نے کار لینے سے انکار کر دیا۔بعد میں بہتر گریڈ ملنے پر گاڑی مل پائی۔ 4:یہی عجز کا پیکر قدرت اللہ شہاب اپنے وجود میں ایک جری اور نڈر افسر بھی سموئے ہوئے تھا، زندگی کے کئی اہم مواقع پر وہ جرات سے کھڑا ہوگیا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ بنگال کے ایک علاقہ میں مجسٹریٹ تھا، قحط کے دن تھے، شہاب نے سرکاری گودام قحط زدگان کے لئے کھول دئیے تھے، حالانکہ اس جرم کی پاداش میں اس کی نوکری جا سکتی تھی، جیل ہوجاتی ۔ امریکیوں کے خلاف بھی وہ ہمیشہ جرات سے کھڑا ہوا اور کہا جاتا ہے کہ اسے ہمیشہ پاکستان میں امریکی سفیر کی ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔کہا جاتا ہے کہ صدر ایوب کی موجودگی میں وزیرخزانہ شعیب جس پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام تھا، اس کے ساتھ شہاب کی تندوتیز جھڑپ مشہور ہوئی۔ 5:شہاب کو ہمیشہ جنرل ایوب خان سے منسلک کیا جاتا ہے کہ وہ ڈکٹیٹر کا حاشیہ نشیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کے مارشل لا سے چار سال پہلے ہی وہ گورنر جنرل غلام محمد کا سیکرٹری بن چکے تھے۔ وہ بعد میں گورنر جنرل سکندر مرزا کے بھی سیکرٹری رہے۔ یعنی ایوان اقتدار میں انہیں ایوب خان نہیں لایا بلکہ وہ ایوب سے کئی برس پہلے ملک کے طاقتور ترین حکمرانوں کے سیکرٹری (پرنسپل سیکرٹری)بن چکے تھے۔ ایوب نے تو حکمران بننے کے بعد شہاب کو صرف برقرار رکھا ، وہ بھی اس لئے کہ انٹیلی جنس رپورٹوں میں اس کے ایماندار اور لائق ہونے کا بتایا گیا۔ 6: شہاب کے ناقدین کا خیال ہے کہ اس نے ایوب خان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی روحانیت کو استعمال کیا اور مذہبی ٹچ کے ذریعے اپنی اہمیت بنائی۔ یہ بات اس لئے بھی غلط ہے کہ ایوب خان کوئی مذہبی آدمی تھا ہی نہیں۔ وہ ایک ماڈرن سیکولر آدمی تھا، جو مذہبی نہیں تھااور نہ ہی وہ مذہبی لوگوں یا روحانی شخصیات یا روحانیت وغیرہ کو پسند کرتا تھا۔ ایوب خان کو تصوف کی سمجھ تھی اور نہ ہی کوئی ’’بابا ‘‘اس کے لئے اہمیت رکھتا تھا۔ 7 : یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنے روحانی پہلو کو ہمیشہ چھپا کر رکھا۔ دوران ملازمت تو خاص طور سے اسے پوشیدہ اور لو پروفائل رکھا۔ ان کے دو تین انتہائی قریبی دوستوں (ممتازمفتی، اشفاق احمد وغیرہ)کے سوا شائد ہی کسی کو علم ہو ۔ان کے قریبی دوستوں میں احمد بشیر جیسا مارکسسٹ اور ابن انشا، جمیل الدین عالی وغیرہ بھی شامل تھے جو تصوف میںچنداں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ مفتی نے اپنے سفرنامہ حج میں کچھ باتیں لکھیں اور باقی بہت بعد کے برسوں میں لکھیں۔ مفتی کی مشہور کتاب الکھ نگری جس میں شہاب کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے ، وہ قدرت اللہ شہاب کی وفات کے کئی برس بعد لکھی گئی۔ 8 : شہاب پر بعض لوگ الزام لگاتے ہیں کہ رائٹرز گلڈ میںشامل نہ ہونے پر اس نے کئی ادیبوں کو ذلیل کیا، جن میں منٹوبھی شامل ہیں۔ یہ بات غلط اور خلاف واقعہ ہے کیونکہ منٹو تو ایوب خان کے حکمران بننے سے تین سال پہلے اٹھارہ جنوری 1955میں انتقال کر گئے تھے ، ایوب خان کا مارشل لا اکتوبر 1958میں آیا۔یاد رہے کہ رائٹر گلڈ ایوب خان دور میں بنا۔ 9 : سوشل میڈیا پر ایک الزام شہاب کے خلاف یہ بھی لگا کہ اس نے بطور سیکرٹری ایوب خان مادر ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی ۔ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور بے بنیاد ہے۔ قدرت اللہ شہاب مادر ملت اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن سے دو سال پہلے ہالینڈ میں سفیر بن کر جا چکے تھے۔ ایوب کی صدارتی مہم میں شہاب پاکستان آئے ہی نہیں۔ جنگ ستمبر 1965میں بھی شہاب ہالینڈ میں تعینات تھے۔شہاب جب ڈپٹی کمشنر جھنگ تھے ،، تب محترمہ فاطمہ جناح وہاں گئیں تو شہاب نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا ، اس کی تصاویر اخبارات میں چھپیں۔یہ بلیک اینڈ وائٹ شہاب نامہ میں بھی شامل ہیں۔ (جاری ہے)