بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک انٹرویو میں سابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ: نواز شریف غیر مشروط اور یکطرفہ طور پر بھارت نواز تھے۔ دہلی میں ہونے والے اجلاس میں نواز شریف نے کشمیر پر خاموشی اختیار کی اور ایک مرتبہ بھی کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ دوسری جانب کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ: مسئلہ کشمیر سرد خانے میں ڈالنا قابل قبول نہیں ہے۔ 23مارچ یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اڑھائی برس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھ کر نہ صرف پاکستانی عوام کو مبارکباد دی بلکہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ حالانکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جب مل کر آگے بڑھنے اور علاقائی مسائل ختم کرنے کا پیغام بھیجا تھا، تو مودی سرکار نے نہ صرف اس پیغام کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ الٹا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیریوں پر مزید عرصہ تنگ کر دیا تھا۔ اڑھائی برس کے بعد اچانک دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی پر چہ میگوئیاں شروع ہو چکی ہیں۔ فریقین نے پہلے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنانے کا عہد کیا۔ بعدازاں وزیر اعظم عمران خان کے جہاز نے سری لنکا کے دورے کے دوران بھارتی فضائی حدود کو استعمال کیا، حال ہی میں پاکستان کی ایک نیزہ باز ٹیم بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کے لئے بھارت میں موجود ہے جبکہ گزشتہ روز ہی دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔ ان اقدامات کے بعد ہی حریت لیڈر سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ: کشمیر پر درپردہ سرگرمیوں کے اشارے مل رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے کشمیری سب سے بڑھ کر حامی ہیں کیونکہ تعلقات کی خرابی سے سب سے زیادہ کشمیری ہی متاثر ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ان تعلقات کی بحالی کے لئے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف کشمیریوںبلکہ پاکستانی قوم کو بھی ہرگز قبول نہیں ہے۔ کشمیر کی قیمت پر بھارت سے تعلقات کی بہتری کا کوئی بھی محب وطن پاکستانی حامی نہیں ہے۔ ماضی میں میاں نواز شریف نے جب بھارت کے ساتھ ذاتی تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنانے کی کوشش کی تو عوام نے اس کا نوٹس لیا۔ اب بھی اگر درپردہ کوئی ایسی کوشش ہو رہی ہے، تو عوام خاموش نہیں بیٹھیں گے۔بلکہ اس کے درمیان مزاحم ہوں گے ۔ اس وقت کشمیر ایشو پر پروپیگنڈا عروج پر ہے۔سرحد کے آرپار قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔اس کا حکومت کو فی الفور جواب دینا چاہیے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کو ماضی کی تلخیاں بھلا کر بہتر تعلقات قائم کرنا اچھی بات ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے والی وجہ باقی نہ رہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کشمیری عوام ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہیں اور ہم خطے میں امن کی توقع رکھیں۔ در حقیقت امریکی نئی انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن کی بحالی کے لئے بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ امریکی قونصلیٹ بھی پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔دوسری جانب سعودی عرب اور عرب امارات بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کرانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ جس کے باعث کشمیریوں کو تشویش لاحق ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جس کے بارے کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے، کشمیریوں کی جدوجہد حق خود ارادیت کا حصول ہے، اس سے ہٹ کر کشمیری عوام کسی چیز پر راضی نہیں ہونگے۔ خدانخواستہ اگر طاقت کے بل بوتے پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے خطے میں تصادم کی ایک نئی فضا پیدا ہو گی۔ جسے کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ بھارت کا پاکستان دشمنی کے حوالے سے ماضی انتہائی خراب ہے۔ اس نے دنیا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے غیر قانونی زیر تسلط کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ کشمیر پر عالمی برادری کی ثالثی کی پیشکش کو رعونت کے ساتھ ٹھکرایا‘26,27فروری اور 2019ء کے جارحانہ اقدام اور پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے حکمرانوں کو کشمیر بارے کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیریوں کی قربانیوں اور بھارتی ہٹ دھرمی کو یاد رکھنا چاہیے۔ پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں کو اس لئے منتخب نہیں کرتے کہ وہ اقتدار میں آ کر دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنی ذاتی تجارت اور کاروبار کو وسعت دینے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کے عہد و پیمان کریں۔ مودی سرکار اگر پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر باہم مذاکرات کرنے پر تیار ہیں، جس میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہو گا تو کوئی مضائقہ نہیں۔اگر وہ اپنے مکروہ عزائم کو دہراتے ہوئے پاکستان کو ٹریپ میں لا کر اس کی سلامتی کے خلاف سازش کرنے کی کوشش کرے گا،تو پھر ہمیں اپنے ملک سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ہم اس کا بخوبی دفاع کرنا جانتے ہیں۔اس وقت پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں کشمیر پر چہ مگوئیاں جاری ہیں ،جس کے باعث کشمیری عوام کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے ،اس لیے حکومت پاکستان کو اس بارے فی الفور وضاحت جاری کرنی چاہیے تاکہ حقائق بارے آگاہی حاصل ہو سکے ۔