کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر کہا ہے کہ مجھے پھانسی کی سزا دی جائے کہ میں نے پنڈی میں دھاندلی کرائی اور 70,70 ہزار کی لیڈ کو ڈبل مہروں سے شکست میں تبدیل کرایا، لیاقت چٹھہ نے یہ بھی کہا کہ میرے ماتحتوں نے اس پر چیخ و پکار کی مگر ہم نے غلط کام کیا جس پر شرمندہ اور پشیمان ہوں، میں خود کشی کر رہا تھا لیکن میرے ضمیر نے مجھے کہا کہ حرام موت کو گلے لگانے کی بجائے میں عام آدمی کو حقائق بتائوں، یہ ایک ایسا دھماکہ خیز بیان ہے جس نے جلتی پر آگ کام کیا ہے، پوری دنیا 2024ء کے الیکشن پر دھاندلی کے الزام لگا رہی تھی مگر ہر آئے روز جو نئے پینڈورا بکس کھل رہے ہیں اس سے ساری کہانی نہ صرف یہ کہ دھاندلہ کی صورت میں سامنے آرہی ہے بلکہ دکھ اس بات کا ہو رہا ہے کہ الیکشن پر غریب پاکستانی قوم کا کثیر سرمایہ خرچ ہوا، الیکشن کمشنر نے کمشنر پنڈی کے الزامات کی تردید کی ہے، چیف جسٹس نے بھی اپنی تردیدی بیان میں کہا ہے کہ مجھ پر الزام تو لگایا گیا ہے، ثبوت نہیں دیئے گئے، اگر الزام غلط ہے تو پھر عدالت عالیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ پیر صاحب پگارا نے بھی 2024ء کے الیکشن میں بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بحران کو مزید بڑھانے کی بجائے جمہوریت کی ساکھ کو بچایا جائے اور عام آدمی کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ سیاسی باتیں تو ہوتی رہیں گی، سیاستدان اقتدار کیلئے سیاست سیاست کھیل رہے ہیں، اُن کی سیاست کا محور اور مرکز اُن کی اپنی ذات ہے، عام آدمی کی بھلائی کا اُن کو کوئی خیال نہیں ہے، جس کا بھی اقتدار آیا اُس نے لوٹ مار کی، اپنے گھر بھرے اور سرمایہ اُٹھا کر باہر بھیج دیا، غیر ملکی بھاری قرضوں کا بوجھ ہمیشہ عام آدمی پر ڈالا گیا اور جب بھی بس چلتا ہے تیل ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، ان کو معلوم نہیں کہ توانائی مصنوعات میں اضافے کامطلب صرف تیل یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں بلکہ اس کے اضافے سے تمام اشیائے ضرورت مہنگی ہو جاتی ہیں، نگران حکومت نے گیس کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کر دیا ہے، اس سے پہلے فکسڈ چارجز کے عذاب نے غریبوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، جہاں تین چار سو کا بل آتا تھا اب صرف تین چار ہزار ہی نہیں بلکہ پانچ سے پندرہ ہزار تک لوگوں کے بل آئے ہیں ۔ لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی احساس نہیں ہے اور حکومتیں لینے والے گونگے بہرے سیاستدان بھی خاموش ہیں، اب گیس 67 فیصد مہنگی کی گئی ہے، نگران حکومت کہتی ہے کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرط پر کیا گیا ہے، بے شرمی کی بات یہ ہے کہ کابینہ نے بھی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری دے دی ہے، مزید یہ کہ پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے گیس قیمتوں میں سو روپے جبکہ نان پروٹیکٹڈ صارف کیلئے گیس کی قیمتوں میں تین سو روپے فی ایم ایم بی بی یو اضافہ کیا گیا ہے جو کہ سراسر ظلم ہے، کارخانوں کیلئے بھی گیس کی قیمتوں میں ریٹ بڑھائے گئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کارخانوں میں تیار ہونے والی تمام اشیاء کے ریٹ خود بخود بڑھ جائیں گے، سارا بوجھ غریبوں پر ڈالا جا رہا ہے اور بوجھ ڈالنے والے سیاستدان ،حکمران اور بیوروکریسی کے لوگ ہیں، مزدور ان پڑھ ہے، مستری ان پڑھ ہے، مکینک ان پڑھ ہے، ڈرائیور ان پڑھ ہے، کسان ان پڑھ ہے، چرواہا ان پڑھ ہے، غرض کہ غریب طبقہ اَن پڑھ ہے، وہ کماتا ہے، محنت کرتا ہے، کرپشن میں اُس کا نام نہیں، جتنی کرپشن کرتے ہیں سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، عیاشیاں بھی یہی کرتے ہیں، لوٹ مار بھی یہی کرتے ہیں اور ملک کو بحرانوں سے دو چار بھی یہی کرتے ہیں۔پاکستان دو لخت ہوا تو اس میں بھی کسی غریب کا کوئی ہاتھ نہیں۔ مہنگائی کے عذاب نے غریب کا جینا دو بھر کر دیا ہے، گیس، پٹرول اور ڈیزل کے علاوہ ہر چیز مہنگی ہے، پیاز روز مرہ کی ضرورت ہے، اڑھائی تین سو روپے کلو بک رہا ہے، لہسن، ادرک کے ریٹ چار سو سے زائد ہیں، اسی طرح سبزیاں اور پھل غریب کی پہنچ سے دور ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں صرف نام کی ہیں، مجسٹریٹوں کی فوج ظفر موج صرف افسری جمانے اور ٹھنڈے کمروں میں موج اڑانے میں مصروف رہتی ہے، ریٹ لسٹوں پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوتا، ملاوٹ مافیا نے الگ سے عذاب پیدا کر رکھے ہیں، ملاوٹ مافیا کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، پنجاب فوڈ اتھارٹی موجود ہے مگر اس اتھارٹی کے لوگ بھی ملاوٹ مافیا سے پیسے لیکر اُن کو سہولتیں مہیا کرتے ہیں، ملاوٹ مافیا کے آمدنی اور اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو حیران کن نتائج سامنے آئیں گے، لوٹ مار کے جتنے بھی محکمے ہیں وہ اپنے عیب چھپانے کیلئے اپنی مشہوری میں مصروف رہتے ہیں، غریبوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، عام آدمی کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اقتدار کی لڑائی ختم نہیں ہو رہی، غریب کہاں جائیں؟ ہسپتالوں میں ادویات نہیں ملتیں، دوسری طرف ڈرگ مافیا نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں از خود ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سمیت متعلقہ محکموں کی نا اہلی کے باعث شہری علاج معالجے سے محروم ہو رہے ہیں، فارما سوٹیکل کمپنیوں اور ڈرگ مافیا کو کوئی نہیں پوچھ رہا، ادویات کمپنیوں کے اثاثے بلین تک جا پہنچے ہیں اور تو اور پرچون بیچنے والے میڈیکل سٹورز بھی موٹا مال کما رہے ہیں، اُن کے پلازے آسمانوں تک پہنچ رہے ہیں اور غریب زمین بوس ہو رہے ہیں، حکومت کو ڈرگ مافیا کی طرف سے کئے گئے اضافوں کا فوری نوٹس لینا ہو گا، لوٹ مار، مہنگائی اور ظلم کی زیادتی کی بہت باتیں ہوئی ہیں، ایک ذکر پی ایس ایل 8 کا بھی ہو جائے کہ ملتان میں بھی کرکٹ کا میلہ سجنے جا رہا ہے، سرائیکی وسیب میں دکھ بہت ہیں مگر ادبی، ثقافتی ایونٹ کے ساتھ ساتھ جب سپورٹس کا میلہ سجتا ہے تو لوگوں کو چھوٹی موٹی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں، سرائیکی وسیب میں لوگ ملتان سلطان کی کامیابی کیلئے آس لگائے ہوئے ہیں، عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی خوش دلشاد نے کہا ہے کہ ملتان میں میچ کھیلنے کا بہت مزہ آتا ہے اور یہ بات میں نے ملتان میں ہی دیکھی ہے کہ شائقین دونوں ٹیموں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ہمیں ملتان میں جتنی محبت ملتی ہے اتنی اور کسی جگہ نہیں ملتی، سرائیکی بہت میٹھی زبان ہے، اس خطے کے لوگ عظیم تہذیب کے وارث لوگ ہیں، ہم ملتان سے جب بھی رخصت ہوتے ہیں بہت اچھی یادیں لے کر جاتے ہیں۔