آپ مملکت خداداد کے کسی بھی چوراہے یا مارکیٹ میں، کسی بھی سڑک کنارے یا پارک، مسجد، دربار اور مندر کے سامنے، کسی بھی اونچے سے اونچے دفتر، ایوان یا دور دراز کونے میں کھڑے ہوں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ چند ہی لمحوں میں آپ کا واسطہ دو میں سے کسی ایک مخلوق کے ساتھ نہ پڑ جائے۔ یعنی ڈاکو اور فقیر۔ جی ہاں طاقت کے زور پر لوٹنے والے ڈاکو اور عاجزی کے ذریعے خیرات مانگنے والے فقیر الا ماشا اللہ ہم ان دو مخلوقات کی پیداوار میں اتنی زیادہ صلاحیت کے مالک ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی غریب سے غریب سے لے کر امیر سے امیر تر قوم اس معاملے میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہماری حکومت کو بھی اس قابل فخر قومی اعزاز کا مکمل ادراک ہے، ماضی میں اسی لئے تو ہر دوسرے دن پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھا کر بھرپور کوشش کرتی رہتی ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہی ہوتا رہے۔ ڈاکو اور فقیر دونوں کا بنیادی مقصد ایک ہی ہوتا ہے یعنی آپ سے جو بھی ممکن ہو سکے ہتھیانا اس لئے آپ ان کو بلاجھجک پیٹی بھائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا آپس میں بہت اتحاد ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں تو یہ مل کر کام کرتے ہیں۔ بہت سے فقیر گلی محلوں اور بازاروں میں ڈاکوؤں کے ایما پر سروے ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں گزشتہ سال آنے والے سیلاب کے بعد ان کی تعداد میں تو کئی گنا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ پہلے افغانی فقیر اور کالی معیشت کے کارپردازان ہی کیا کم تھے کہ سیلاب کے بعد ملک کے اندرسے غریب و محتاج مخلوق کی بسیں بھر بھر کر کے ہر قصبے اور شہر میں ان کو اتنی زیادہ تعداد میں پہنچا دیا گیا ہے کہ کوئی گلی اور کونہ نہیں رہ گیا جہاں پر ان کی بھرپور نمائندگی نہ ہو۔ اب تو یہ آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ یہ سب کچھ چھوٹو گینگ کے کاروبار کا حصہ ہے۔ سن رہے ہیں کہ اس کی اعلیٰ کارکردگی سے خوش ہو کر ان لوگوں نے اسے ملک کے تمام کونوں تک رسائی دے دی ہے جو آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں جنت پہنچانے کا بندوبست کر رہے ہیں کیونکہ نہ کسی کے پاس کچھ بچے گا نہ ہی اس کو آخرت میں حساب دینا پڑے گا اور نہ ہی کسی سزا کا خطرہ رہے گا۔ میرے خیال میں دنیا بھر میں جنت کے متلاشی افراد کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ مملکت خداداد میں مستقلاً منتقل ہو جائیں جہاں ان کی منزل کے حصول کے تمام ذرائع مہیا کر دیئے گئے ہیں۔ویسے اگر حکومت بھرپور طریقے سے مملکت خداداد کی اس حوالے سے برینڈنگ کرے تو تمام دنیا سے لوگ اتنی تعداد میں یہاں کا رخ کریں گے اور سبز پاسپورٹ کے حصول کی اتنی درخواستیں دیں گے کہ عمران خاں کے حواریوں کا یہ خواب بھی پورا ہو جائے گا کہ سبز پاسپورٹ کی قدر امریکی نیلے رنگ کے پاسپورٹ سے بھی بڑھ جائے۔ کسی کو ہو سکتا ہے ان لوگوں کی کثرت کے بارے میں میری بات سے اتفاق نہ ہو تو وہ تجربہ کر کے پاکستان کے اس سب سے منظم اور بڑے کاروباری طبقے کی معیت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔آپ کسی اشارے پر پرس گاڑی کی ساتھ والی نشست پر رکھ کر بائیں طرف کا شیشہ نیچے گرا دیں دیکھیں کیسے لمحوں میں آپ کا پرس اچکا جاتا ہے۔ آپ کوئی مناسب قیمت کا موبائل سیٹ لے کر گلی میں واک کرتے کرتے ایک چکر لگائیں آپ دیکھیں گے کیسے کوئی غیبی مخلوق لمحوں میں موٹر بائیک پر ظاہر ہو گی اور آپ کو فون سن سن کر کان خراب ہونے کی فکر سے آزاد کر دے گی۔ خاطر جمع رکھیں کہ شہر میں موٹر سائیکلوں پر ادھر ادھر بظاہر آوارہ گھومنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد ان شکاری پرندوں کی طرح موقع کی تلاش میں ہوتی ہے جو شکار کی تلاش میں ہوا میں اڑتے اڑتے زمین پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور شکار نظر آتا ہے تو جھپٹا مار کر یہ جا وہ جا۔ آپ بچوں کے ساتھ آئس کریم یا کوئی اور کھانے کی چیز لے کر کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر کھانے کی کوشش کریں آپ دیکھیں گے لمحوں میں جتھوں کے جتھے چاروں طرف سے آپ پر پل پڑیں گے اور آپ کے فیملی کے ساتھ خوشگوار لمحات گزارنے کے لطف کو کئی گنا بڑھا دیں گے۔ آپ مصیبت کے مارے کسی بھی عدالت یا سرکاری دفتر سے کوئی چھوٹا موٹا ریلیف لے کر نکلیں آپ بابو نما ڈاکو سیبچ بھی جائیں آپ مبارک باد دے کر بخشیش لینے والے سے نہیں بچ سکیں گے۔ اچھا اگر آپ ان سب سے بچنے کے لے گھر میں پناہ گیر ہو جائیں تو پھر آپ کی محبت میں سرشار حکومت بجلی اور گیس کے بل بھیج کر، آپ کو گندگی زدہ ماحول مہیا کر کے، سپیڈ بریکروں سے بھرپور اور گٹر کے ڈھکنوں سے محروم گلیاں اور محلے دے کر اور ہر وقت ڈکیتی و چوری کے خوف سے مزین سوچ کے آسیب کے ساتھ گھر بیٹھے بیٹھے آپ کی مکمل تفنن طبع کے لے بیش بہا سامان مہیا کرتی رہے گی۔ اگر پھر بھی کوئی کسر رہ گئی ہو تو انہی سرکاری و غیر سرکاری ڈاکوؤں کے بھائی بند دودھ فروش، سبزی و پھل فروش اور زندگی کی دیگر ضروریات فروخت کرنے والے پوری کر دیں گے۔ ایسے ہی لوگ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں بھی موجود ہیں جو سازشیں کر کے قابل، پیشہ ور، عوام کی خدمت کے جزبے سے سرشار اساتذہ کا راستہ بند کر کے اپنا راستہ نکال لیتے ہیں اور عوام کو مزید رلا کر ان کو اللہ میاں کے اور نزدیک کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں لاہور کے جنرل ہسپتال میں بھی پیش آیا جہاں آپریشن تھیٹر میں ایک غریب مریض کے آپریشن میں مصروف پروفیسر ڈاکٹر کو وزیر اعلیٰ نے مبینہ طور پر اس بنا پر معطل کر دیا کہ وہ غریب مریضوں کا آپریشن نہیں کرتے۔ تب سے اب تک ہسپتال کے اس شعبے میں آپریشن کا پورا نظام ہی الٹ پلٹ ہو گیا ہے جبکہ یہ آپریشن غیر سرکاری ہسپتال میں دس لاکھ کے لگ بھگ پڑتا ہے۔ راقم کو گزشتہ دنوں میو ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا آپریشن تھیٹر میں اے سی ہی نہیں ہے بلکہ بے ہوش کرنے والی گیس بھی سرکار مہیا نہیں کر رہی اور لواحقین بازار سے خرید کر سرجن کو فراہم کرتے ہیں تب آپریشن ممکن ہوتا ہے۔ حتی کہ زخم کو صاف کرنے والی پایوڈین جیسی معمولی دوا بھی سرکار کے سٹاک میں موجود نہیں ہوتی۔ سہولت تو سرکار آپ کم سے کم تر درجے کی بھی مہیا کرنے سے قاصر ہیں اور سزا دینے کے اختیار کو استعمال کرنے میں حد درجہ مستعد ہیں۔ اللہ ہی اس قوم کا حامی و ناصر ہو۔