فلوریڈا امریکہ کی وہ جنوبی ریاست ہے جو لاکھوں سیاح ہر سال اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خوب صورت موسموں ،درختوں،پھلوں ، آسائشوں، دھوپ بھرے ساحلوں اور نیلے سمندروں کی یہ دنیا اپنا اسیر کرلینے کے لیے مشہور ہے ۔ڈزنی لینڈ والا آرلینڈو ،جیکسن ول،ٹیمپا اور میامی فلوریڈا کے چند مشہور شہر ہیں۔ہم فلوریڈا کی’ ’ ولانو‘ ‘ بیچ پر گھوم رہے تھے کہ ایک ادھیڑ عمر امریکی نے ہم چاروں دوستوںکی تصویر اکٹھے بنانے کی پیشکش کی۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ ساحل پر آیا ہوا تھا اور دو ہفتے پہلے کلیو لینڈ کے ایک ہسپتال سے مصنوعی کولہا لگوانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرا تھا۔ذرا سی گفتگو ہوتے ہی وہ کھل گیا۔ہسپتال نے علاج کی بڑی رقم لینے کے باوجوداس سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے تھے۔ نتیجہ یہ کہ وہ سرجری کروا کر بھی پچھتا رہا تھا۔’ ’ میں نے اپنا کاروبار بھی اپنے بیٹے کو چار لاکھ ڈالر میں بیچ دیا ہے ،اب پتہ نہیں وہ مجھے پیسے دیتا ہے یا نہیں ‘ ‘۔ اس نے ایک گہری سانس کھینچ کر کہا۔میں اس کی ہمت پر حیران تھا کہ بستر سے اٹھتے ہی وہ سیدھا ساحلوں کی طرف آگیا تھا اور یہ بات بھی سوچ رہا تھا کہ انسانی دکھ سکھ،زندگی کے مسائل،رشتوں کی بے اعتباری ہر ملک اور ہر عمر میں انسان کے ساتھ لگے ہیں۔ان سے کہیں چھٹکارا نہیں۔ 18 اکتوبر سے2دسمبر تک 45دن امریکہ میں سیر و سیاحت ،مشاعروں، اور ملاقاتوں میں گزارنے کے بعد امریکہ اور امریکی معاشرے کا ایک تاثر بننا فطری تھا۔اس دورے کے دوران ہمیںنیویارک ،کلیو لینڈ، شکاگو،برمنگھم،جیکسن ول،ڈیلس،واشنگٹن ڈی سی، سنسناٹی،اٹلانٹا،ہیوسٹن،سالٹ لیک سٹی اور لاس اینجلس سمیت بہت سے شہروںمیں گھومنے پھرنے، بھرپور مشاعروں میں غیر معمولی پذیرائی کے پھول سمیٹنے اور ملاقاتوں کا موقعہ ملا ۔زیادہ تر ہمارا رابطہ اردو برادری سے رہا جس میں ہندوستانی اور پاکستانی نژاد سب لوگ شامل تھے۔ یہ کہنا ممکن نہیں کہ ماہ ڈیڑھ ماہ کی سیاحت کے بعد آپ کسی معاشرے کو ٹھیک سے جان چکے ہیں۔ایک سیاح کی نظر اور ہے اور ایک شہری کی نظر بالکل اور۔اگر ہم اپنے ترقی پذیر ملکوں اور بہت سے شعبوں میں پیچھے رہ جانے والے معاشروں کے احساس مرعوبیت یا احساس برتری ( جو اکثر احساس کمتری سے ہی جنم لیتا ہے ) سے نکل کر ایک درست اور ٹھیک تجزیہ کرنے کے قابل ہوسکیں تواس میں کوئی شک نہیں کہ ان ملکوں میں نظام،فرد اور معاشرے کی اتنی خوبیاں ہیں کہ تعریف کے لیے کتاب بھر تصنیف بھی کم پڑتی ہے ۔تاہم ایک زمانے سے بہت سے ملکوں کی بادیہ پیمائی کرتے کرتے بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔اور عادت کچھ ایسی پڑگئی ہے کہ نگاہ کسی منظر کے دونوں پہلو پرکھنے لگتی ہے۔ میری ناسمجھی سمجھ لیجئے لیکن ان ملکوں کی سیاحت کرتے ہوئے ہمیشہ میرے ذہن میں کچھ شبہات اور سوالات پیدا ہوتے رہے ہیں جن کا تشفی بخش جواب مجھے کبھی نہیں مل سکا۔ضروری نہیں کہ یہ سوالات ہر مغربی ملک کے لیے درست ہوںلیکن اکثر و بیشتر یہ درست ہیں۔مثلاہر شہری کی بنیادی ضروریات روزگار، مکان، تعلیم اور صحت ہوتی ہیں۔میراسوال یہ ہے کہ ان مال دار، متمدن ممالک نے جن کی تجوریاں ہمیشہ بھری رہی ہیں اپنے شہریوں کی ان بنیادی چار ضروریات کا خیال کیسے رکھا ہے۔ روزگار کے معاملے میں سوشل سکیورٹی یابے روزگاری الاؤنس کی صورت میں کسی حد تک یہ اشک شوئی نظر آتی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ فی گھنٹہ کم از کم تنخواہ بھی کچھ بند باندھ دیتی ہے لیکن یہ قابل عزت بھی نہیں اور اس نظام میں مشکل وقت یا دیگر ضروریات کے لیے پیسے جوڑ لینے کی سکت بھی نہیں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمام خرچ اور تمام کٹوتیوں کے بعد ایک متوسط طبقے کے برسر روزگار آدمی کے لیے بھی بچت ممکن نہیں ہے۔گزر بسر بھی اسی وقت ممکن ہے جب گھر کے افراد زیادہ نہ ہوں اور گھرکا ہر فرد کام کرتا ہو ،ورنہ گزارا مشکل ہے اور کام نہ کرنے والا فرد بہت جلد بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ مکان کا مسئلہ ان ملکوں میں لامکان جیسا ہے۔مکانوں کی قیمتیں اور سالانہ ٹیکس امریکہ کی مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں۔اکثر جگہ یوںہے کہ قیمتیں نسبتا کم ہیں تو ریاستی ٹیکس بہت زیادہ،یا اس کے برعکس۔اگر کریڈٹ رینکنگ ٹھیک ہو تومتوسط طبقہ اپنی ضرورت کے مطابق مارٹگیج پر مکان لے سکتا ہے لیکن پھر وہ ساری زندگی اس کولہو میں ایک بیل کی طرح جتا رہتا ہے اور سود در سود قسطیں ادا کرتا رہتا ہے۔ تمام عمر آزادنہیں ہوتا۔گاڑی اور دیگر اشیائے ضرورت بھی اعلٰی سے اعلیٰ دستیاب ہیں لیکن سودی شکل میں۔ چنانچہ ایک عام آدمی یہ فیصلہ ہی نہیں کرپاتا کہ لی گئی اشیاء کی سہولت زیادہ ہے یا سر پر قسط کی لٹکتی تلوار کی تکلیف۔ تعلیم کا معاملہ ظالمانہ ہے ۔ہائی سکول یعنی بارہ جماعت تک تعلیم مفت ہے ۔لیکن اس کے بعد اگر کوئی طالب علم کالج یا یونی ورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہے تو ایک پہاڑ چڑھنا اس کی نسبت آسان ہے۔جتنا اچھا تعلیمی ادارہ، اتنے ہی ہوش ربا اخراجات۔چنانچہ امریکیوں کا ایک بڑا طبقہ اسی تعلیم پر اکتفا کرکے چھوٹی موٹی ملازمتیں کرلیتا ہے۔معاشرے کا چلن یہ ہے کہ والدین اگر مال دار ہوں جو اکثر و بیشتر صورتوں میں نہیں ہوتے، تب بھی یہ خرچ طالب علم کوخود ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔اس کا مددگار کوئی نہیں ہوتا۔چنانچہ اسے بھاری سود پرتعلیم کے لیے قرض لینا پڑتا ہے جو آسانی سے مل جاتا ہے،اس کے باوجودطالب علم کو چھوٹی موٹی ملازمتیں،ذاتی رہائش اور مشکل تعلیم ساتھ ساتھ جاری رکھنی پڑتی ہے۔بہت سے لوگ اس منجدھار کی نذر ہوکر راستے میں رہ جاتے ہیں۔جو پار اترتے ہیں وہ اگرچہ مشکلات عبور کرکے آئے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیمی قرض اتارنا ہوتا ہے جو اکثراتارتے اتارتے بال سفید ہونے لگتے ہیں۔یہ ان کی تنخواہ پر منحصر ہے کہ وہ کتنی جلدی اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ صحت کا مسئلہ اور بھی سنگین ہے ۔ہیلتھ انشورنس کے بغیر سرکاری یا نجی ہسپتالوں میں علاج کا تصور نہیں۔علاج نہایت مہنگا ہے اور اگر خدا نخواستہ کسی بڑی بیماری کی زد میں آگئے تو گویا دہرے شکنجے میں پھنس گئے۔ادھر انشورنس کمپنیاں زیادہ عمر کے لوگوں،ذیا بیطس،بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں کی صورت میںیا انشورنس سے انکار کردیتی ہیں یا بہت زیادہ پریمیم طلب کرتی ہیں جو ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔ اوباما نے انشورنس کمپنیوںکو پابند کیا تھا اور ہیلتھ کیٔر پالیسی بہتر بنائی تھی لیکن خطرہ ہے کہ ٹرمپ ان سب اقدامات کو ختم کردے۔ میںنے اپنے امریکی دوستوں کے سامنے یہ سوالات رکھے تو انہوںنے یہ مسائل تسلیم کیے البتہ تشریح اپنی اپنی تھی۔البتہ یہ تشریح کم ازکم میرے لیے قابل قبول نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ہے لہذا ایسا تو ہوگا۔ اس طرح تو ہر معاشرہ اپنی خامیوں کا دفاع کرسکتا ہے۔کوئی مجھ نا سمجھ کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ ان ملکوں کے ائیر پورٹس اور سٹیشنزپر اگر سامان کی ٹرالی مفت کردی جائے ۔ائیر پورٹس ، ریلوے سٹیشنزاور بسوں کے ٹرمینلز پر انٹر نیٹ صرف 45منٹ کے بجائے مکمل فری کردیا جائے ۔مانچسٹر ریلوے سٹیشن ، یوکے پر مسافروں سے واش روم استعمال کرنے کا ایک پونڈ لینا بند کردیا جائے ۔ڈاک کے ذریعے ہیوسٹن امریکہ سے نیویارک ایک کلو گرام سے کم وزن کی کتاب بھیجنے کے 14 ڈالرزکے بجائے دو یا تین ڈالرز لے لیے جائیں ۔ تفریح گاہوں کی پارکنگ لاٹس میں پارکنگ کی فیس5 ڈالرز فی گھنٹہ سے کم کرکے مفت کردی جائے ، کم از کم سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت یا نہایت کم خرچ کردیا جائے ۔و علیٰ ہذا القیاس ، تو ان ملکوں کی معیشت پر کتنا ناقابل برداشت بوجھ پڑے گا ۔؟آخرکتنا بوجھ حضور ؟ یہ کام تو ہم اور ہمارے جیسے پسماندہ ممالک ہنسی خوشی سال ہا سال پہلے کرچکے ہیں ۔اس لیے صاحبو!دل کے ٹکڑوں کے جڑنے تک یہ سوال تو برقرار ہے کہ کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں ؟