انسان کی فطرت میں محبت رکھ دی گئی ہے اگر محبت نہ ہو تو پھر وہ انسان نا مکمل ہو گا محبت ہی کے دم سے یہ زمین آباد اور شاد ہے جبکہ نفرت تکبر کی اورمحبت عاجزی اور انکساری کی علامت ہے۔ جبکہ نفرت اور تکبر کو ذلت عطا کر دی ہے وہ انسان کہ جس کے اندر دوسروں کے لیے نفرت اور حسد پایا جاتا ہو وہ کبھی بھی خوش اور صحت مند نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ہم سے جتنا ممکن ہو سکے ہم ایک دوسرے میں محبت اور خوشیاں تقسیم کریں۔ اِس دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں وہ سب محبت کرنے والے تھے اُسی محبت اور لازوال عشق کی وجہ سے اُن کے نام آج بھی زندہ ہیں۔ آج اپنے ہی علاقے فورٹ منرو میں آسودہ خاک ایک انگریز خاتون میڈ ایون کی کہانی سنانا چاہتا ہے جس نے اپنے خاوند کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی اور پھر فورٹ منرو میں اپنے خاوند کیپٹن فیریر کی بانہوں میں انتقال کر گئی۔ انگریزوں نے 1868ء میں ڈیرا جات (ڈیرہ غازی خان ) کو فتح کرنے کے بعد اِس کے قبائلی علاقوںکا رُخ کیا جہاںپر بلوچ قبائل نے پہلے پہل تو انگریزوں کا مقابلہ کیا لیکن بعد میں اپنے سرداروں کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کو راستہ دے دیا۔ ڈیرہ غازی خان میں مزاری ، لغاری ، گورچانی ، بزدار ، لُنڈ ، کھوسہ ، قیصرانی ، دریشک اور دیگر نے جب انگریزوں کے ساتھ صلح کر لی اور تمن داریاں حاصل کر لی تو انگریزوں نے سب سے پہلے لغاری تمن کے علاقہ فورٹ منرو کا رُخ کیا سنڈیمن ڈیرہ غازی خان کے پہلے پولیٹیکل اسسٹنٹ تھے جنہوں نے گھوڑے کی پیٹھ پر مسلسل بیٹھ کر پورے قبائلی علاقہ کا دورہ کیا۔ بلوچوں کی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے سنڈیمن کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ فورٹ منرو کو فتح کرنے کے بعد حکومت برطانیہ نے پورے قبائلی علاقہ میں امن امان قائم رکھنے کی خاطر بی ایم پی (بارڈر ملٹری پولیس) کی بنیاد رکھی اور مختلف بلوچ تمن میں سے بھرتیاں کر کے پورے قبائلی علاقہ کو امن کا گہوارہ بنا دیا چونکہ ڈیرہ غازی خان میں شدید گرمیوں کا موسم ہوتا ہے یہاں تک کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں یہاںکا درجہ حرارت اکثر اوقات 48 سینٹی گریڈ سے لے کر 50 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے جس کو برداشت کرنا صرف جفا کش اور سخت جان بلوچوں ہی کاکا م ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں جتنے ٹھنڈے علاقے ہیں وہ پٹھانوں کے پاس ہیں جبکہ گرم ترین علاقے سبی، جیکب آباد ،ڈیرہ مراد جمالی ، جھیل مگسی لاشار ، مستونگ ، ڈیرا بگٹی روجھان ، ڈیرہ غازی خان یہ سب گرم ترین علاقے بلوچوں کے مسکن ہیںاِسی گرم آب و ہوا کی وجہ سے بلوچوں کے خون میں گرمی جوش اور غصہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ انگریزوں نے اِس شدید گرم علاقہ میں جب فورٹ منرو میں قدم جمائے تو اُنہوں نے اپنا گر میوں کا ہیڈ کوارٹر فورٹ منرو کو قرار دیا اس لیے ڈپٹی کمشنر اور پی اے کے دفاتر اپریل سے لے کر اگست تک فورٹ منرو میں شفٹ ہو جایا کرتے تھے۔ انگریزوں نے فورٹ منرو کی سڑک بنائی اور یہاں کی ترقی کے لیے خوب کام بھی کئے اور اپنی فوج کے بہترین جوان فورٹ منرو میں تعینات کیے رکھے انہی میں سے ایک کیپٹن فیریر بھی تھے جن کو ملتان کے آخری کمشنر مسٹر اولڈ ہوم کی اکلوتی بیٹی میڈایون کے ساتھ جنون کی حد تک عشق تھا اور پھر یہ عشق شادی میں تبدیل ہو کر میڈایون ہمیشہ کے لیے کیپٹن فیریر کی ہو گئی یہ اور بات ہے کہ ہمارے ڈیرہ غازی خان معروف قانون دان ملک سلیم کوثر اِس محبت کی داستان کے کتبے کو میڈایون کی قبر پر پڑھ کر میڈایون کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے یہاں تک ملک سلیم کوثر 1976ء سے لے کر2007ء تک میڈایون کی 13 اکتوبر وفات والے دن کو ہر سال فورٹ منرو اُس کی قبر پر حاضر ی دیا کرتے تھے۔ میڈایون اور کیپٹن فیریر نے شادی کے بعد جنون کی حد تک ایک دوسرے سے محبت کی تھی اور ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو اکھٹے ہی الوادع کریں گے یعنی اکٹھے ہی اِس دنیا سے کوچ کریں گے ۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ایم لونگ ورتھ ڈیمز نے فورٹ منرو کی دیکھ بھال اور حفاظت کی خاطر کیپٹن فیریر کو یہاں پر تعینات کر دیا جو اپنی خوبرو بیوی میڈایون کو لے کر فورٹ منرو شفٹ ہو گئے ہنسی خوشی اِن دونوں کے دن فورٹ منرو کی خوب صورت وادی میں بسر ہو رہے تھے کہ ایکدن میڈایون کو زچگی کی تکلیف شروع ہو گئی اور پھر وہ اِسی تکلیف میں بغیر بچہ پیدا کیے فورٹ منرو سے نیچے بمقام کھر میں فوت ہو گئی کیپٹن فیر یر جس نے اپنی محبت میڈایون کو کبھی الوادع نہ کہنا کا عہد کیا ہوا تھا کہ اکٹھے اِس دنیا سے رخصت ہونگے لیکن اُس کی محبوبہ13 اکتوبر 1906ء کو فورٹ منرو میں فوت ہو گئی اور محبت کی یہ لازوال داستان اپنے اختتام کو پہنچی میڈایون کو فورٹ منرو میں ڈی سی ہاوس کے نزدیک دفن کیا گیا اورکتبہ میڈایون کی قبر پرنصب کیا گیا ۔یہ کتبہ میڈایون کی قبر پر اُس کے شوہر کیپٹن فیر یر نے خود نصب کرایا تھا جس پر وفات 13 اکتوبر 1906ء لکھی ہے اِس عبارت کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ : ترجمہ: تمہاری آنکھیں جنت میں بادشاہ یعنی (خدا ) کا دیدار کر رہی ہوں گی اور تم یہاں دور دراز (فورٹ منرو) سے اپنی خوب صورت سر زمین (انگلینڈ) کا بھی نظارہ کر رہی ہو جو کہ یہاں سے دور اور بہت ہی دور ہے ۔ 2007ء میں چند انگریز جب فورٹ منرو کی سیاحت کے لیے آئے تھے تو اُنہوں نے میڈایون کی قبر کے ساتھ اپنا کیمپ لگایا تھا اور ایک رات اُنہوں نے میڈایون کی قبر کو کھودا اور کچھ قیمتی چیزیں جو کہ اُس کے خاوند نے اُس کی قبر میں دفن کر دی تھیں وہ نکال کر راتوں رات فورٹ منرو سے فرار ہو گئے دوسرے دن صبح مقامی بلوچوں نے میڈایون کی کھودی گئی قبر کی اطلاع دی ۔ تابوت میں چند ہڈیوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا جن کو دوبارہ دفن کر دیا گیا۔ ٭٭٭٭٭