اکثر نوحے ہی لکھتا ہوں اورآج پھر نوحہ لکھ رہا ہوں۔یہ نوحہ ہے ضمیر کی، یقین کی موت کا۔ یہ نوحہ ہے ڈیڑھ ارب سے زیادہ بے وزن، بے وقعت، ماضی و حال و مستقبل سے بے گانہ ہجوم مومناں کا۔یہ اس ہجوم مومناں پر گناہوں کی سزاکی طرح مسلط ان کے بزدل، پست ہمت اور غلام در غلام حکمرانوں کا سوگ ہے۔ یہ دنیا بھر میں ان مسلمان علمائ، مفکرین ا ور دانشوروں کا نوحہ ہے کہ جن کے علم و دانش سے اپنے محروم اور اغیاز فیض پاتے ہیں۔ یہ ان مسلم سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا سوگ ہے کہ جن کی آستینوں کے سانپ اس امت کے خون اور پسینے کی کمائی پر پلتے ہیں اور رسول عربی ﷺ کی اسی امت کے ہزاروں بچے بھوکوں مرتے ہیں۔ یہ امت محمد ﷺ کا نوحہ ہے، جانتا ہوں انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک ڈیڑھ ارب انسان، قیادت و سیادت سے محروم اور منزل و شعور منزل سے ناآشنا لوگ، جو اپنے آپ کو ایک رب، ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن کے ماننے والوں میں شمار کرتے ہیں، ان کے عقائد و اعمال اپنے دعوے سے اتنے دور ہو گئے ہیں کہ خود انہیں بھی اپنی پہچان نہیں رہی۔ گمراہی، بھوک، افلاس، غلامی اور جبر کو اس امت نے اپنا مقدر بنا لیا ہے لیکن اس امت کا نوحہ کہنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ رونے سے بگڑے ہوئے نصیب کہیں سنورتے ہیں؟ تو پھر آج کس کس کا رونا روئوں،کس کس کا ماتم کروں؟ یہ نوحہ ان اہل قلم کے لیے ہے!جو مر گئے، سو گئے جن کے قلم ٹوٹ گئے، زنگ آلود ہو گئے ہاتھ شل ہیں، آنکھیں بے نور ہیں حواس مختل، زبانیں گنگ ہیں دماغ زندہ، دل مردہ جن کی غیرت مر گئی، ضمیر سو گیا ہے جو پیٹ سے سوچتے ہیں،معدے سے لکھتے ہیں۔ جی ہاں یہ ان شاعروں، ادیبوں، اہل دانش، صحافیوں اور نقادوں کا نوحہ ہے کشمیر کا لہو اور فسلطین کے آنسو جن کو متاثر نہیں کرتے۔ جن کے قلم سے کشمیر میں آگ میں جل بھن کر خاک ہونے والوں کے لیے روشنائی کا کوئی آنسو نہیں ٹپکتا۔دنیا کے عارضی مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے آقایان ولی نعمت کے دن رات مدح خواں رہتے ہیں۔مگر ان شہیدوں کو خراج پیش کرنے کے لیے وہ کبھی کوئی نظم،کوئی ترانہ نہیں لکھتے جو ان کے بچوں کی میٹھی نیند کی خاطر جاگتے اور ان کے خوش حال مستقبل کی خاطر اپنے حال کو نچھاور کر کے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ اے میرے ملک کے شاعرو! ادیبو! اگر تمہاری زبانیں گنگ ہیں اور تمہارے قلم حق کہنے اور حق لکھنے کے لیے سوکھ گئے ہیں، تم اس وقت کیوں لکھنے لگتے ہو، کہنے لگتے ہو،موزوں سخن اور قادرالکلام ہو جاتے ہو جب، تمہارے پیٹ پر کوئی لات مار دے۔تمہاری انا کے بت کو ضرب لگا دے۔ تمہارے ضمیر نے کبھی تم سے پوچھا کیا یہ ادب ہے جو تم پیش کرتے ہو، کیسے ادیب اور شاعر ہو تم،کہ بلبل کے آنسوئوں پر بے تاب ہو جاتے ہو، چڑیا کے زخمی پر تم کو بے چین کر دیتے ہیں، زلف طرح دار کے خم و پیچ سے طرح ملتی ہے تم کو، فسانہ ہجر و وصال مزے لے لے کر سناتے ہو، ابر کے جھوم کے اٹھنے پر جھوم جاتے ہو، بدلی کے برس جانے پر بلا نوش ہو جاتے ہو، قصہ عراق و شام و کشمیر و فلسطین کیوں بے رنگ ہے تمہارے لیے؟ لہو کے ابلتے فوارے اور بہتے دریا کیوں نظر نہیں آتے تم کو؟ فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں ہزاروں گھروں کے دیپ بجھ گئے۔ ہزاروں گھروں کی دہلیز پر بیٹھی مائیں، بیٹیاں اپنے پیاروں کی منتظر، آنسوئوں کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی، ان کی حسرت بھری نگاہیں، ان کے بھیگے ہوئے آنچل فریاد کناں، جن کے دور افق کے اس پار جانے والے پیارے تا ابد لوٹ کر نہ آئیں گے۔ ان عفت مآب مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو حسرت تھی داد پانے کی، کیا ان کے آنسوئوں کی گل و بلبل کے فسانے جتنی بھی اہمیت نہیں؟ جگر کے خون میں قلم ڈبو کر لکھنے والے ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں سے، کیا یہ امت محروم ہو گئی، کیا سب موت کی نیند سو گئے؟ اے اہل قلم!تمہارے دل میں کوئی کانٹا چبھا؟ تمہارے ضمیر نے کسک محسوس کی؟ کچھ نہیں ہوا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ تم مر چکے ہو اور اگر زندہ ہو تو ایسے کہ اپنے ضمیر کی لاشوں کے ساتھ زندہ ہو، اس لیے یہ تمہارا ماتم ہے، میں تمہارے سوگ میں رو رہا ہوں۔ اے آزاد دنیا کے قلم کارو! تم دن رات ڈیڑھ ارب انسانوں کو موت سے ڈراتے ہو، بزدل کوئوں کی طرح اسرائیل،امریکا، یور پ،بھارت کی خون خواری اور مکاری سے خود بھی خوف زدہ ہو اور کائیں کائیں کر کے قوم کو بھی خوف دلاتے ہو، تم وہی تو ہو جو امریکا کی ہیبت اور دبدبے سے مرے جا رہے تھے، تمہارے اوسان تب بھی خطا تھے، تمہارے قلم پر اس وقت بھی خوف اور کپکپی طاری تھی۔ تمہارے ہاتھ اس وقت بھی کانپ رہے تھے جب وہ ہمسایہ ملک پر ٹوٹ پڑا تھا۔دانشوری کے نام پر غلط راہیں سجھانے والو! اے میرے وطن کے بے دانش ورو! تمہاری بزدلی نے یہ شعبدہ دکھا یاہے کہ جن قوموں کو رہنے کے لیے گندی نالیوں اور کھانے کے لیے کیلے کے چھلکوں اور گھاس کے سوا کوئی چیز میسر نہیں وہ بھی ہمیں نگل جانے اور مٹا دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں جن کے اپنے گھروں کی دہلیز پر تباہی دستک دے رہی ہے، وہ تمہارے الفاظ میں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جو ہمارے خوف سے مرے جاتے ہیں تمہارے قلم ان کے خوف سے تھر تھرا رہا ہے۔ایک جانب ایڈز گزیدہ، بھوک و افلاس کی آگ میں جلتا ہوا بھارت ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی عظمتوں کے مینار مسمار کرتا پھرے، لیکن تمہارے کانوں پر جوں تک نہ رینگے۔ دوسری طرف امن کا دعویدار،امریکا لا کھوں انسانوں کو کچل دے، انہیں ٹینکوں کے نیچے پیس ڈالے، بموں سے جلا ڈالے، گھرو ں کو مسمار کر دے، حیوانوں پر آگ برسائے، تو تمہاری دانش وری خاموش رہے۔ قبلہ اول غلام ہو، اس کے ارد گرد انسان پروانوں کی طرح مٹ رہے ہوں تمہارے ضمیر کو کچھ نہ ہو، تمہارا قلم حرکت میں نہ آئے۔ میرے دیس کے خاموش دانش ورو! تم اس لیے منقار زیر لب ہو کہ تمہیں کوئی بنیاد پرست نہ کہہ دے۔ تم مردہ نہیں تو اورکیا ہو؟اپنی شہ رگ پر غیر کا قبضہ ہے اور وہ اسے کاٹ دینے کے درپے ہے، اپنی رگ جاں کی حفاظت کے لیے تمہارا قلم آج خاموش رہا تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ غزہ اور ہمالیہ کے دامن سے اٹھنے والا طوفان تمہارے گھر سے ہو کر نہیں گزرے گا؟ ا تم کو ’’دہشت گرد‘‘ کہہ کر کوئی ہشکار دے تو تمہاری سانس پھول جاتی ہے؟ حالانکہ تہذیب جدید کا علم بردار امریکا، دنیا کو ’’نئے احکام‘‘ سنانے والاانسانوں کو کاٹ بھی ڈالے تو دہشت گرد نہیں کہلاتا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے، ان کا نام و نشان مٹا ڈالے تو دہشت گرد نہیں ٹھہرتا۔ کالی چمڑی والوں کی چمڑی اتار دے، انسانوں کی خوراک کچھوئوں کو کھلا دے، لاکھوں بے گناہوں کے سرگولیوں سے اڑا دے، اپنے ہاں اسلحے کے ڈھیر لگا دے، دنیا کو بارود کا ڈھیر بنا دے، تو بھی وہ دہشت گرد نہیں ہوتا۔ کشمیریوں کی کھالیں کھینچنے والا بھارت اپنے ہی وعدوں کی مٹی پلید کر ڈالے، ایک کروڑ انسانوں پر چھ لاکھ مسلح دہشت گرد پہرے پر لگا دے، ان کی آبادی کم کرنے کے لیے نسل کشی کرے، انسانوں کو گرم تیل میں بھون ڈالے، تو وہ دہشت گرد نہیں کہلاتا، یہ سب کچھ دیکھ کر بھی تمہارے قلم اور غیرت کو جوش نہیں آتا؟ تم آج بھی گل و گلزار خال و رخسار کے چکروں میں پڑے ہو۔ زندگی موت، عزت اور ذلت اگر انسان کے ہاتھ میں ہوتی تو اس کائنات میں کسی کو جینے کا حق نہ ہوتا۔ خوشامدوں، معذرتوں اور خاموش رہنے سے دشمن بخش نہیں دے گا ہماری موت، زندگی، عزت اور ذلت اس ذات کے ہاتھ میں ہے جسے کبھی فنا نہیں۔ جس سے زیادہ طاقت ور کوئی سپر طاقت نہیں جس سے بڑی کوئی قوت نہیں۔ بزدلی ہمیں موت سے نہیں بچا سکتی۔ یاد رکھو! ہمارا ’’مسلمان‘‘ کہلانا ہی ’’مجرم‘‘ ہونے کے لیے کافی ہے۔ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے، اپنے قلم سے معذرتیں لکھتے رہیں گے، ظلم کو چھپاتے رہیں گے اور ظالم کی مدد کرتے رہیں گے تب بھی مر جا ہیں گے اور یہ موت بہت ذلت کی موت ہوگی۔ کیا مر گئے اہل جنوں کچھ خبر تو لو اٹھتی نہیں کہیں سے بھی دارو رسن کی بات