اردو اخبارات میں کالم نگاری کو ،موضوعات کے تنوع اور اسلوب زبان پر دسترس کی بنیاد پر ، جو وقعت اور اعتبار آج حاصل ہوا ہے وہ کسی زمانے میں محض انگریزی اخبارات کا امتیاز سمجھا جاتا تھا ۔اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی انگریزی اخبارات کے کالمز موضوعات کی جدت طرازی اور ا سلوب نگاری میں ایک جداگانہ معیار کے حامل ہیں مگر یہ بات بھی اب ایک حقیقت بن چکی ہے کہ اردو اخبارات کے کالمز بھی اپنے موضوعات اور طرز نگارش کے اعتبار سے اپنی صحافتی اور ادبی ساکھ بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔اپنی اسی حیثیت کے باعث اب شائع شدہ اردو کالمز کو کتابی شکل میں پیش کئے جانے کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ’’کیا لوگ تھے ‘‘سعدیہ قریشی کے ان کالمز کا مجموعہ ہے جن میں انہوں نے رخصت ہو جانے والے مشاہیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے احساسات سمو دئے ہیں۔ادب ، صحافت ، سیاست ،شاعری، کھیل، خدمت خلق ، فن و فنکار اور ذاتی مراسم پر مشتمل معروف شخصیات کی وفات پر اپنے تعلقات اور تجربات کو انتہائی خوبصورت لفظوں میں تراشتے ہوئے جس طرح انہوں نے اپنے کالمز لکھے ہیں اس سے ان شخصیات کے بارے میں ان کے اخلاص اور گہرے قلبی جذبات پوری طرح نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں افتخار عارف، ہارون رشید اور ڈاکٹر معین نظامی کے توصیفی کلمات ، جو کتاب کا حصہ ہیں ، سند کا درجہ رکھتے ہیں ۔افتخار عارف نے اپنے تحسینی کلمات میں لکھا ہے۔’’ سعدیہ ہر تحریر کو اپنے مرکز کے اطراف بہت خوبصورتی سے موضوع کے تانے بانے پھیلاتی ، سنوارتی ، سنبھالتی اور اختتام تک لے جاتی ہیں ۔پھر اپنے موضوع پر عالمانہ گرفت اور بیانیہ کا حسن اس کو صحافت سے ادب کے رتبے پر فائز کردیتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر معین نظامی نے اپنے تعارف میں لکھا کہ۔ ’’ سعدیہ قریشی کے کالم میرے لئے جاذبیت کا باعث ان کی راست فکری ، گہرا عصری شعور، معتدل خیالی،روایت داری،اقدار دوستی ،احسان شناسی ،قدردانی، طبعی انکسار، ادعا، بناوٹ اور نعرہ بازی سے گریز اور اسلوب کا حسن اور وقار ہے۔ ‘‘ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سعدیہ قریشی کو اپنے احساسات لفظوں میں منتقل کرنا خوب آتا ہے۔اس کتاب میں شامل کچھ کالمز سے اقتباسات ان کے اس ہنر کی گواہی کے لئے کافی ہیں۔ ’’ ہمارے حقانی صاحب ‘‘ سے یہ اقتباس ملا حظہ ؔؔ’’سرخ گلابوں کے ہالے میںاس کا چہرہ ایسا تھا جیسے کوئی بچہ دن بھر تھکا دینے والے کھیل کے بعد سر شام تھک کر سو گیا ہے ۔نہ کوئی گرد ملال چہرے پر نہ کسی پچھتاوے کی رمق۔۔۔۔اطمینان ہی اطمینان۔۔۔! زندگی کے آخری سفر پر روانہ ہونے والے یہ ہمارے حقانی صاحب تھے ۔ ‘‘ سعدیہ قریشی نے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر جس گہرے دکھ اور کرب کو محسوس کیا بلا شبہ اس کی سچائی نے ان کے لفظوں کو معتبر کردیا ہے۔ ’’ وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم سے کچھ اقتباسات ان کے دکھ کو کس طرح بیان کر رہے ہیں یہ پڑھ کر ہی محسوس کئے جاسکتے ہیں: ’’ ابھی تک حیرت زدہ ہوں کہ 27 دسمبر کی شام 6 بج کر 16 منٹ پر جنرل ہسپتال راولپنڈی میں بے نظیر کو موت آئی یا اسے ایک نئی زندگی نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔اس شام وہ موت کی وادی میں کیا اتری کہ لاکھوں دلوں میں اتر گئی۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے جس بہادری سے موت کو گلے لگایا تھا اس کی بیٹی نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسی طرح استقامت کی تاریخ رقم کردی ۔سعدیہ قریشی نے جان ڈن کی موت کے حوالے سے ایک نظم کا کچھ حصہ ترجمہ کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت انداز میں اس کالم کو مکمل کیا ہے ۔’’ اے موت تو مغرور نہ ہو ،اگرچہ بہت سے لوگ تجھ سے خوفزدہ ہیں مگر تو مجھے مار نہیں سکے گی ۔ کیونکہ موت ہمارے لئے آرام کا وقت ہے اور نیند پوری کرنے کا زمانہ ہے ، ہمارے اچھے لوگ عین جوانی میں موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔‘‘ ’’ میں حیران ہوں کہ 27 دسمبر کی شام بے نظیر کی موت پر غم کی جویکجہتی دیکھنے میں آئی ، وہ اس کی رخصتی کا ماتم تھا کہ اس کی بہادری کو آنسوئوں میں ڈوبا ایک خوبصورت خراج! ‘‘ اس کتاب میں جن شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ان کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے رہا ہے ۔اور کمال حیرت یہ کہ سعدیہ قریشی نے ہر ایک کے بچھڑنے پر جو تاثرات سپرد قرطاس کئے ہیں، وہ ان کے ذاتی دکھ محسوس ہوتے ہیں۔ یہ ان کی وسیع النظری اور حساس طبیعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ان شخصیات میں عبدالستار ایدھی ،منو بھائی،نیلسن منڈیلا،بے نظیر بھٹو،دینا جناح،سید علی گیلانی،ڈاکٹر عبدالقدیر،منیر نیازی، احمد فراز، ضیاء محی الدین ،مشتاق احمد یوسفی، طارق عزیز، انتظار حسین،امجد اسلام امجد ، بشری رحمن ، بانو قدسیہ، روحی بانو اور نیرہ نور سمیت کتنی ہی نامور اور معروف شخصیات شامل ہیں ۔ان بڑے لوگوں کے بچھڑنے پر جو تاثرات اپنے کالمز میں پیش کئے ہیں اس کا جواز دیتے ہوئے وہ لکھتی ہیں ۔’’ افریقی قبیلوں کی ایک روایت ہے کہ ایسے بڑے لوگوں کے مرنے پر جو طویل عمر گذار کر اپنے حصے کا بہترین کام کر کے جائیں تو ان کے مرنے پر لوگ گیت گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں یہ شکر انے کا اظہار ہے کہ ایسے شاندار لوگ ہمارے درمیان موجود رہے ہم نے ان کا عہد دیکھا ۔‘‘ سعدیہ قریشی نے اپنے کالمز میں اسی روایت کو تازگی دی ہے اور خوب دی ہے ۔ قلم فائونڈیشن لاہور نے اس کتاب کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ شائع کیا ہے جس کے لئے اس ادارے کے روح رواں جناب عبدالستار عاصم صاحب بھی تحسین کے مستحق ہیں۔