کہتے ہیں مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے بچوں کے لئے شفقت، پیار اور ایثار کا پیکر ہوتی ہیں بلکہ سب دوسرے بچوں کے لئے ان کا پیار اسی معیار کا ہوتا ہے۔کسی ماں کی زندگی اس کے اپنے بچے کی زندگی کی سلامتی کی ضمانت ہوتی ہے۔ وہ بچہ ہر دم اپنی ماں کی دعائوں کے حصار میں رہتا ہے۔ ماں کی دعائیں اس کے لئے ہر ابتلا میں، ہر مشکل میں اور ہر کٹھن وقت میں ایک قلعے کی طرح اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ ماں عجیب ہستی ہے ، خود کتنی بھی بیمار ہو ، کتنی بھی مضمحل ہو، اسے اپنے بچوں کی خیریت کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔وہ اپنی صحت کی پرواہ بھی نہیں کرتی مگر اپنی اولاد کی ہر سانس پر پہرا دیتی ہے۔ایک شخص حقیقی معنوں میں اس وقت یتیم ہوتا ہے جب اس کی ماں کی دعائوں کا حصار اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا خاک مرقد پر تیری یہ پیغام لے کر آئوں گا اب دعائے نیم شب میں، میں کس کو یاد آئوں گا جب بھی کسی دوست کی والدہ اسے چھوڑ کر اس جہاں فانی سے کوچ کرتی ہیں تو جانے کیوں میرا دل ڈوبنے لگتا ہے حالانکہ ہم سب رب العزت کا مال ہیں اس کی رضا کے آگے کسی کا بس نہیں ۔ رب کی رضا ہی سب کی رضا ہے مگر اس کے باوجود افسوس تو زندگی کا حصہ ہے مگر جانے کیوں مجھے لگتا ہے میری ماں مجھے ایک بار پھر چھوڑ گئی ہے۔ میں اس دوست کا غم اپنا لیتا ہوں۔ میری ماں کو فوت ہوئے اٹھائیس سال ہونے کو ہیں۔ اس وقت اپنے کم شعور کے سبب میں اس کی وہ خدمت نہ کر سکا جو ماں کی عظمت کا اصل تقاضا تھا، جس کا مجھے افسوس ہے ۔ لیکن ایسے لمحوں میں ، میں اپنے دوستوں کے ساتھ جو آنسو بہاتا ہوں ان آنسوئوں میں میری اپنی ماں کی یاد بھی بڑی شدت سے میرے اندر ابھر کر آتی ہے۔ میں کوشش کے باوجود دوستوں کے ساتھ وہ روایتی الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہوں جو لوگ افسوس کے لئے آسانی سے ادا کر لیتے ہیں۔قتیل شفائی کہتے ہیں، ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام قاضی اکرام بشیر میرے پرانے ساتھی ہیں ۔ تدریس کے شعبے میں میرے ہم نوا ، گو عمر میں مجھ سے کم ہیں مگر تجربے اور عملیت میں، میں تو کیا بڑے بڑے شہسو اروں کو مات دیتے ہیں۔ لکھنا ، پڑھنا ،پڑھانا،کالم نگاری، دنیا داری کے حوالے لوگوں سے میل جول اور لا تعداد کام کرتے ہیں۔ ان کی والدہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے علیل تھیں۔ وہ چنیوٹ کے رہنے والے ہیں مگر اک عرصے سے لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ والدہ مگر چنیوٹ کے آبائی گھر ہی میں مقیم تھیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک سعادت مند بیٹے کی طرح انہوں نے اپنی ساری مصروفیات ترک کرکے پچھلے سال ڈیڑھ سال کا زیادہ وقت والدہ کو دیا اور ان کے پاس چنیوٹ ہی میں مقیم رہے ۔ اس دوران ان کی تحریروں کا محور بھی ان کی والدہ اور چنیوٹ ہی رہا۔چند دن پہلے ان کی وفات ہو گئی۔ میں قاضی صاحب کے غم میں برابر کا شریک ہوں ۔ ان کے آنسوئوں کے ساتھ آنسو بہا سکتا ہوں مگر روبرو الفاظ میں اظہار بڑا مشکل کام ہے۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے بیٹے کی محنت، ماں کی خدمت اور فرمابرداری پر اس پر بھی خاص نظر کرم کرے۔ خواجہ جمشید امام ایک جزو وقتی سیاسی کارکن اور کل وقتی صحافی ہیں۔پاکستانی سیاست کے اس بازار میں وہ دوستوں کے ساتھ بہت دفعہ چلنے پہ مائل ہوئے مگر شاید یہ شعبہ کسی صاحب کردار کا بار اٹھا ہی نہیں سکتا۔ وہ ہر دفعہ راستے سے ہی لوٹ آئے۔ صحافت میں البتہ ایک بڑا نام، خوبصورت لکھتے ہیں۔ جاندار تحریروں کے مالک۔ میں اور وہ روزنامہ دن میں بہت عرصہ اکٹھے ایک ہی وقت میں لکھتے رہے۔ ان کی والدہ شوگر کی مریض تھیں اور وہ ہمہ تن ان کی خدمت پر مامور۔ لیکن رب کے کاموں میں کوئی دخل نہیں ۔ چند دن ہوئے ان کی والدہ بھی اﷲکو پیاری ہو گئیں۔ میں افسردہ رہا مگر تہتر سال کی عمر اور یہ شدید سردی ۔ بچے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔ میں خواجہ صاحب کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔ ان سے معذرت خواہ بھی ہوں، حاضر ی نہیں لگوا سکا۔ ویسے حاضر ہو کر بھی انہیں دیکھ کر کچھ آنسو ان کی نذر کر آتا۔ افسوس مجھے کرنا نہیں آتا۔ ماں قاضی اکرام بشیر کی ہوں یا خواجہ جمشید امام کی ، ان کا غم میرا اپنا غم ہے جو میری زندگی کاایک جزو ہے۔ سوشل میڈیا پر چھوٹی سی اطلاع تھی ۔کسی نے لکھا تھا کہ ہمارے والد سید فراست بخاری فوت ہو گئے ہیں۔ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں۔فراست بخاری ایک درویش آدمی۔ کسی ادبی محفل میں چلے جائیں۔ آپ کو فراست بخاری اس کی میڈیا کوریج کو موجود ملتے تھے۔ فوٹو گرافی ان کا شوق تھا۔ان کے پاس تصاویر کا ایک بہت بڑا خزانہ تھاجس میں بڑی نایاب تصویریں موجود ہیں۔ کاش کوئی ایسا ادارہ ہوتا جوا ایسی چیزوں کو محفوظ کر سکتا۔فراست بخاری معاشی طور پر کوئی بہت خوشحال آدمی نہیں تھا۔ بس مخلص تھا، انتہائی مخلص۔ میرا عقیدہ ہے کہ مخلصی اور مفلسی کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ تو وہ مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ یقیناً مفلس بھی تھا۔ وہ چپ چاپ مر گیا اور اس کے بعد بھی خاموشی ہی نظر آتی ہے۔ ہونا تو یہ چائیے کہ ہماری ادبی انجمنیں جن کی اس شخص نے عمر بھر خدمت کی ، اس کے گھر کے حالات کا جائزہ لیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے گھر والوں کوفراست بخاری صاحب کے دوستوں کی مدد درکار ہو۔مگر سوائے پروفیسرعاشق راحیل صاحب کے جنہوں نے اپنا مشاعرہ ان کے نام کر دیا، کسی نے ان کے بارے کوئی بیان بھی نہیں دیا۔ میری خواہش ہے کہ ان کے گھر کی خبر لی جائے اور جو جائز مدد انہیں درکار ہو، سب مل جل کر کریں۔ میں اس سلسلے میں ہر طرح حاضر ہوں۔ پچھلے ہفتے میں مشہور آرٹسٹ جناب اسلم کمال کی موت بھی ایک سانحے سے کم نہیں۔ مرحوم اس ملک کا اثاثہ تھے۔ میں اور ڈاکٹر جاید اقبال ندیم جنازے سے کچھ پہلے ان کے گھر گئے تھے۔ ندیم صاھب غسل خانے میں گرنے کے سبب چل نہیں سکتے تھے اس لئے ہم کچھ دیر بعد حاضری لگوا کر واپس آ گئے۔ بہر حال دعا ہے کہ اﷲتعالیٰ ان تمام مرحومین کو ٰ اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور مرحومین کے وارثان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔