عمرہ کی پوری رات حرم میں جاگتے بھاگتے گزارنے کے بعد میرے روم میٹ یہ دونوں سہل پسند نوجوان (حمزہ اولکھ، طلحہ بسرا) تھکن سے اس قدر چُور تھے کہ جب ان کی نئی نویلی دلہنوں نے بھاگم بھاگ ہمارے کمرے میں آ کر بتایا کہ گروپ لیڈر کا ارجنٹ پیغام ہے کہ آپ کی مدینہ سے خریدی گئی چھے بنڈل کھجوریں (جن کی مالیت کوئی ڈیڑھ لاکھ کے قریب بنتی تھی) ہوٹل کی لابی میں پہنچ چکی ہیں، انھیں فی الفور اپنے کمرے میں رکھوا لیں۔ اس وقت یہ دونوں گھبرو کمرے میں خراٹے خراٹے کھیل رہے تھے، اس لیے چہیتی بیویوں کی میسج بیانی پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جب انھیں تھوڑا بہت جھنجوڑ کر کھجوریں گم ہو جانے کا عندیہ دیا تو سوتے ہی میں ارشاد ہوا ’کھجوریں اور آ جائیں گی، اس وقت نیند نہیں قربان کی جا سکتی۔‘ اس لہجے اور آواز میں ایک جٹ اور جاپان جپھی ڈالے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ کئی بار تو نیند کی محبت میں بری طرح گرفتار یہ نٹ کھٹ نخریلے ہوٹل میں تیرہ گھنٹے جاری رہنے والے میس کو بھی مدہوشی میں گزار دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس وقت پورے مکہ میں اگر سونے کا کوئی مقابلہ منعقد ہوتا تو یہ دونوں نوجوان فارم سینتالیس کا سہارا لیے بغیر بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پاتے۔ البتہ ایک مشکل ضرور درپیش ہوتی کہ ان دونوں میں اول اور دوم کا فیصلہ خراٹوں کے پنلٹی سٹروک ہی سے ممکن ہوتا۔ صرف ادھر ہی نہیں بلکہ زنانہ کمرے میں بھی مکہ کی پینتالیس درجے کی گرمی برادشت کرنے کے بعد ہُو کا عالم تھا۔ خبر ملی کہ ان میں سے ایک نوجوان کی ساس تو باقاعدہ سویا ساس میں تبدیل ہو چکی تھی۔ شفاف قسم کی ٹنڈ کرانے کے بعد جب مَیں ان دونوں سے شیمپو اور کنگھے کی بابت دریافت کرتا تو کچھ بولنے کی بجائے ہمیشہ سر پر ہاتھ پھیر کر کھسیانی سی ہنسی کو ترجیح دیتے۔ حقیقت یہ کہ ٹھنڈے یخ ہوٹل میں پہنچتے ہی باہر کی گرمی کو ان نوجوانوں نے دل پر لے لیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں کہ سہل پسندی، خوشحالی کی بڑی بہن ہوتی ہے۔ ان کے شناختی کارڈوں نے ابھی پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں کہ جاپان کا ویزا مل گیا۔ بڑے بھائیوں اور خاندان کے دیگر افرادکے وہاں سیٹل ہونے کی وجہ سے کاروبار بھی چلا چلایا میسر آ گیا۔ مرضی کی شادیاں بھی چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق عمل میں آ گئیں۔ کئی عدد عمرے کرنے کے بعد اب حج کا معاملہ بھی نمٹ گیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ خوشحالی اب ان کی جیبوں ہی سے نہیں جسموں سے بھی نمایاں ہونے لگی تھی، وہی بات کہ: خدا جب وزن دیتا ہے، کہولت آ ہی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ باتھ روم میں گھستے تو نہا نہا کے ان کا نہون ہو جاتا۔ مَیں انھیں لاکھ سمجھاتا کہ پیارے بچو! پانی کو اس طرح دل پر لینا ڈڈوؤں، مچھیوں کا کام ہوتا ہے۔ انسان کے بچے سے تو ایسی حرکات محض ضرورت یا مصیبت کے تحت سر زد ہوتی ہیں، ان دونوں کا حج کے دنوں میں دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اس نوووٹل ٹھاکر ہوٹل میں ہمیں ووٹل کا مطلب بالکل سمجھ میں نہیں آیا، ہمیں تو اپنے ملک میں کبھی ووٹنگ کا مفہوم پلے نہیں پڑا ۔ البتہ ’ٹھاکر‘ ہندی فلموں اور افتخار ٹھاکر، نصرت ٹھاکر کی وجہ سے ہمارے لیے جانا پہچانا تھا۔ لگتا ہے اس لفظ میں ٹھاٹ اور کروفر گھل مل گئے ہیں۔ ویسے عربوں کا تو مزاج بھی ٹھاکروں جیسا ہے۔ یہ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمیں کبھی عربی سمجھ آئی نہ عرب لیکن ان کے چہروں مُہروں، چال ڈھال، لہجے اور تیوروں سے ہمیشہ رَجّے پُجّے ہونے کی نوید ملتی ہے۔ ویسے تو ہم ہر عرب کو سید یا قریشی سمجھ لیتے ہیں لیکن ان کو بغور دیکھیں تو کوئی اپنی اکڑفوں سے سیدھا سیدھا جٹ لگتا ہے، کوئی اپنی سیانف اور طراری سے چلتا پھرتا رانا ہے، کسی کا رویہ پاکستانی شیخ ہونے کی چغلی کھاتا ہے اور کسی کسی کے اوپر تو ارائیں پُنا قدرتی طور پر نقش ہوا ملتا ہے۔ ہمارے لاہور میں لے دے کے ایک ٹھوکر ہے وہ بھی میاں نیاز بیگ کی۔ جس کے متعلق ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے کسی ذاتی تلخ تجربے کی بنا پر فرما رکھا ہے: کھائی ہیں ہم نے یوں تو زمانے کی ٹھوکریں ٹھوکر نیاز بیگ ہے ، ٹھوکر نیاز بیگ ان دنوں مکہ میں پچیس لاکھ کے لگ بھگ حجاج کرام موجود تھے۔ اتنے لوگوں کی میزبانی کرنے کے لیے خدا نے انھیں ظرف بھی بڑا دیا ہے۔ بدلتے وقت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اب ہوٹلوں کے کچن میں خواتین کا عمل دخل بڑھ گیا ہے، جو مردوں کی نسبت نہایت اچھی میزبانیں ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کے لہجے میں لجاجت، چال میں مجاجت اور گفتگو میں سماجت کی خو بو باقاعدہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے ان کی ایک ایک چیز پر نظر ہوتی، کہاں پانی کی بوتل، کہاں جوس، کہاں ٹشو، کہاں چائے، کہاں کافی، کہاں شہد اور کہاںمحض سمائل کی ضرورت ہے۔ مکہ میں اپنے ڈھیروں ڈھیر بیرون ملک مقیم ہم سفروں کے علاوہ ہمارا جن غیر ملکیوں سے تعارف یا مکالمہ رہا، ان میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی باتیں ناقابلِ فراموش رہیں گی۔ ان کے یہ جملے آج بھی مرے دل پہ رقم ہیں۔’ آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ 1971ء میں بھاری اکثریت والے لیڈر کو کارنر کر کے چاترانہ و شاطرانہ چالوں کے ذریعے ایک کم مقبول لیڈر کے لیے جیت کا راستہ ہموار کرنے کی آپ کو کتنی قیمت ادا کرنا پڑی؟‘ ایک صاحب کہنے لگے: ’خدا کے بندو! آپ لوگوں نے کبھی غور بھی کیا ہے کہ اتنی تو کسی ملک کی ٹوٹل فوج ہوتی ہے، جتنی آپ نے اپنے ازلی دشمن کو پلیٹ میں رکھ کے پیش کر دی۔‘ وہ لوگ آج بھی میرے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن مَیں انھیں نہیں بتا سکتا کہ بعض دور نااندیشوں کے سبب آج تو اُس سے بھی زیادہ مقبول، ایماندار، محبِ وطن بلکہ پچانوے فیصد لوگوں کے محبوب ترین لیڈر کو کارنر کر کے غیر مقبول ترین اور پٹے ہوئیمُہروں کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے، اب تو یہی دعا ہے کہ خدا ہمیں عقل اور عبرت کی توفیق دے نہ دے، کسی مزید بڑے حادثے سے بچائے رکھے۔ ایک دن ہوٹل میں نماز کی امامت کرانے والے الجیریا کے رِدا مربوسی سے بھی تعارف ہوا، جو اپنا نام بتا کے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں وضاحتیں کرنے لگا کہ ’’رِدا‘‘ اگرچہ زنانہ نام ہے لیکن ہمارے ہاں دونوں اصناف کے لیے چلتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ یہ مسئلہ بھی ہر تہذیب میں موجود ہے۔ ہمارے ادھر بھی شہناز، شہباز، زمرد، سلیم، نسیم، قیوم،بشارت، نصرت، عشرت، نور، فرشتہ حتیٰ کہ اقبال اور سردار جیسے نام بھی دو دھارے ہیں۔ ایک زمانے میں جس اخبار میں مَیں کالم لکھتا تھا وہاں روحی کنجاہی اور افضل توصیف بھی اسی مغالطہ آمیز ناموں کے ساتھ موجود تھے۔ کسی شاعر نے شاید اسی تذبذب آمیزی کی بنا پر کہا تھا : ناموں سے ختم ہو گئی تفریقِ مرد و زن شمشاد آ گئی ہے کہ شمشاد آ گیا مکہ میں جس شخص سے ملاقات کر کے مجھے سب سے زیادہ مزہ آیا وہ بمبئی … (جاری)