پی ڈی ایم کی فتوحات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آزادکشمیر کے بعد گلگت بلتستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے بطن سے فارورڈ بلاک کا ظہور وزیرامور کشمیر و گلگت بلتستان جناب قمر الزمان کائرہ کی نگرانی میں ہوا۔ یہ مت بھولیں کہ کائرہ کا شمار ملک کے لبرل اور جمہوریت نوازرہنماؤں کی فہرست میں لکھا اور بولا جاتاہے۔ اب انہیں مخالف سیاسی جماعت میں فارورڈ بلاک بنوانے کے امور کا ماہر بھی کہہ سکتے ہیں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں نے تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کے اشتراک سے ایک عمررسیدہ اور بیمار بزرگ حاجی گلبر خان کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے تخت پر فائز کر دیا۔ شیر اور بکری دونوں ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ اس اتفاق کی برکت سے یہ خطہ بھی جلد ہی ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کرے گا۔ انشا اللہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حاجی دگلبر خان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما کہلاتے تھے۔ پھر تحریک انصاف کے بلے کو پیارے ہوگئے۔ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے بغیر کسی تکلف کے اسمبلی کے فلور پرآصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی آشیر باد سے وہ وزیراعلی گلگت بلتستان منتخب ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی میں پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جمعیت علماء اسلام کی کل نشستوں کی تعداد آٹھ تھی جبکہ تحریک انصاف کے پاس وزیراعلٰی خالد خورشید کی نااہلی کے بھی بعد 21 نشستیں تھی۔ الیکشن کے فوری بعد جب وزیراعلی کا الیکشن کرانے کی کوشش کی گئی تو عدالت کے تعاون سے اور پولیس کے ذریعے سپیکر کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے تک نہ دیا گیا۔ اس کے بعد غیرمعمولی لابنگ ہوئی۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو توڑا گیا۔ ڈرایا گیا۔ دھمکایا گیا۔ خوفزدہ کیا گیا۔مستقبل کے سہانے خواب بھی دکھائے گئے۔نتیجتاًپی ٹی آئی کے کافی سارے ارکان نے پارٹی پالییسی کے مغائر ایک فارورڈ بلاک تشکیل دے حکومت بنا ڈالی۔ آزاد کشمیر میں بھی یہی ہوا اور اب کلگت بلتستان میں بھی وہی سکپرٹ دہرایا گیا۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاست اسلام آباد میں برسر اقتدار حکمران جماعت کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ جو بھی پارٹی اسلام آباد میں برسراقتدار آتی ہے وہ جب چاہتی ہے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ارکان اسمبلی کی دم پہ پاؤں رکھ کر ان کی گردن مروڑتی ہے۔ ان میں سے اکثر بغیر چوں چراں کے اسلام آباد کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح آگرتے ہیں۔ ان دونوں خطوں میں نظریاتی وابستگی اور سیاسی دباؤبرداشت کرنے کی روایت کمزور ہے۔ منتخب نمائندوں کی ترجیح حلقے کی سیاست سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسلام آباد کے کرتادھرتا ان کی اس کمزوری سے واقف ہوتے ہیں اور حسب ضرورت ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کراتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ خیال آتاہے کہ اگر ان علاقوں کے عوام کو اپنی آزادانہ مرضی سے حکومت منتخب کرنے اور پھر اس حکومت کو کام کرنے کی اجازت نہی ہیں تو کائے کو الیکشن کا جھنجھٹ پالاجاتاہے۔ بہتر نہیں کہ ان خطوں کو وفاقی علاقہ قراردے کر ان پر ایک گورنر یا پھر ایک ریزیڈنٹ مقرر کردیا جائے۔ نہ نَو مَن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ سیاست ایک مقدس انسٹی ٹیوشن ہے۔اس کی ساکھ اور اعتبار ہی اس معتبر بناتاہے۔ ہمارے ہاں اس انسٹی ٹیوشن کی ایسی درگت بنائی گئی کہ اب اس سے گھن آتی ہے۔سیاسی جماعتوں میں ایک تسلسل سے توڑ پھوڑ کی تاکہ کوئی بھی پارٹی جم نہ سکے۔ اس طرزعمل نے سیاسی جماعتوں کو کمزور اور مقتدر حلقوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ایک سیاستدان کا اخلاقی وجود ہی اس کی ساکھ یا امیج بناتاہے۔ اگر یہ وجود ہی دھڑام سے گر جائے تو وہ کیا خاک سیاست کرے گا۔ اور لوگ اس پر کیسے اعتبار کریں گے؟ پرویز خٹک، فوائد چودھری اور اسد عمر کو جس طرح لوگوں نے بے رحمی سے مسترد کیا وہ ایک تازہ مثال ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب سیاست میں کوئی نظریہ باقی نہیں رہا۔ کچھ معلوم نہیں کہ آج کل کی بڑی سیاسی جماعتوں کا سیاسی اور معاشی نظریہ کیا ہے۔ ان کے لیڈروں کی سیاسی فکر کیا اور وہ کن لوگوں کو سیاست میں اپنا آئیڈیل تصورکرتے ہیں۔ ان ایشوز پر اب زیادہ بات نہیں ہوتی۔کسی زمانے میں طلبہ سیاست اور لیبر یونین ہوتی تھیں۔ لوگ سرخ اور سبز جھنڈے لے کر نکلتے تھے۔تقریریں اور تحریریں سیاستدانوں اور جماعتوں کی سیاسی فکر کا تعین کیا کرتی تھیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ خاندانی سیاست ہے یا کاروباری طبقات نے اپنے ناجائز کارناموں کو تحفظ دینے کے لیے سیاست اور صحافت کا نقاب اوڑھ لیا ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیںکاروباری ونچر بن چکے ہیں۔کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال نیو نارمل بن ہے۔بے شمار کرتادھرتا سیاست دان ہیں، جنہوں نے اپنے سیاسی سفر میں ہر سیاسی جماعت کا نمک چھکاہے لیکن وفاداری کسی کے ساتھ نہ نبھائی۔ جس کشتی پر سوار ہوئے اسی میں سوراخ کیا۔نوازشریف پر قسمت مہربان ہوئی تو پیپلزپارٹی سے چھلانگ مار کرنون لیگ کی صف اوّل میں کھڑے ہوگئے۔عمران خان کا سورج جب نصف النہار پر تھا تونون لیگ سے راہیں جدا کرکے کئی ایک خواتین وحضرات عمران خان کے سپاہی بن گئے۔ ان پر مشکل وقت آیا تو وہ نیوٹرل ہوگئے یا فارورڈ بلاک بنا کر اپنے ماضی سے جان چھڑالی۔ کچھ استحکام پاکستان پارٹی کا پرچم اٹھا چکے ہیں۔ جس دن استحکام پاکستان پارٹی میں دم خم نہ رہا یہ اگلی منزل کے مسافر ہوں گے۔ یہ لوگ سیاست کو ایک کاروبار کی برتے ہیں۔ جہاں بہتر مول مل جائے وہاں اپنی دکان سجالیتے ہیں۔ ان کے کوئی جذبات ہیں اور نہ احساسات۔ ان برزجمہروں کے کردار کی بدولت ملک اس نہچ پر پہنچ چکا ہے کہ ؎ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن زوال پزیر سیاسی روایات اور جمہوری کلچر کی نوحہ گری کے لیے خدائے سخن میر انیس بھی دستیاب ہوں تو یہ کہانی پوری طرح بیان نہ کی جاسکے گی۔ حرف آخر: تجویز ہے کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی اسمبلیاں تحلیل کراکر ان دوخطوں میں بھی پاکستان کے جنرل الیکشن کے ساتھ انتخابات کرادیئے جائیں تاکہ وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کو ان دونوں علاقوں میں دھاندلی اور من مانی کرنے کا موقع نہ ملے۔ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے۔ پانچ برس سکون کے ساتھ حکومت کرے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں نون لیگ اور پی پی پی کے سہارے حکومتیں قائم ہیں۔ وہ حمایت واپس لے لیں تو نئے الیکشن کی راہ ہموار ہوجائے گی۔