بگ ایپل(Big apple) یا بڑا سیب امریکہ کے شہر نیو یارک کا عرفی نام(Nick Name) ہے۔ یہ امریکہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جہاں دریائے ہڈسن بحیرہ اوقیانوس کو ملتا ہے ، یہ شہر وہیں واقع ہے ۔ اس کی پانچ ڈسٹرکٹس ہیں جن میں سب سے درمیان میں آسمان کو چھوتی بلڈنگوں سے بھرپور اور اس ملک کی سب سے بڑی مالی، کاروباری اور کلچرل سرگرمیوں سے مالا مال ڈسٹرکٹ مین ہٹن ہے۔یہاں کوئی بلڈنگ بھی چالیس منزل سے کم نظر نہیں آتی۔مین ہٹن میں دنیا کی مالی شہرت رکھنے والی وال سٹریٹ (Wall Street) بھی ہے۔یہ علاقہ بڑے سیب یعنی نیویارک کا دل کہلاتا ہے۔یہاں آپ کو ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ، نیون سائن سے بھرا چمکتا ہوا ٹائم سکوائر ،سنٹرل پارک، بہت سے تھیٹر اور بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا۔59 مربع کلومیٹر پر مشتمل اس جزیرہ نما کی آبادی بیس لاکھ کے قریب ہے۔یہ رقبے کے لحاظ سے نیویارک کی سب سے چھوٹا ڈسٹرکٹ جب کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا دسٹرکٹ ہے۔ دنیا کے دو سب سے بڑے سٹاک ایکسچینج بھی یہیں واقع ہیں۔مین ہٹن معاشی حیثیت سے گلوبل کیپیٹل مانا جاتا ہے۔ نیو یارک ایک ملٹی کلچرل شہر ہے جہاں ہر قوم اور ہر نسل کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگوں کا تعلق دو سو سے زیادہ مختلف علاقوںاور قوموں سے ہے۔ یہاں آباد یہودی 20 لاکھ سے زیادہ ہیں۔ڈچ ، پرتگیزی، یونانی ، روسی اور سویڈن کے لوگ یہاں بڑی تعداد میں ہیں۔یہاں ایشیائی اور ہر طرح کے لوگ بھی آباد ہیں۔کیتھولک کرسچین اور یہودیوں کے بعد اسلام یہاں کا تیسرہ بڑا مذہب ہے اور یہاں دس لاکھ کے قریب مسلمان موجود ہیں۔انیسویں صدی میں بندرگاہ اور انڈسٹریل حب ہونے کی وجہ سے اس کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا اور دنیا بھر سے لوگ یہاں روزگار کی تلاش میں آئے۔ نو اگست 2011کے واقعے میں جو ورلڈٹریڈ سنٹر کے ٹون ٹاورز تباہ ہوئے تھے جن کے نتیجے میں دنیا بھر میں بہت تباہی آئی وہ بھی مین ہٹن کے علاقے میں تھے۔امریکی ذرائع کے مطابق دو جہازوں نے ٹون ٹاور پرحملہ کیا ۔یہ خود کش حملہ تھا جس کے نتیجے میں حملہ آور بھی مارے گئے اور ان کے ساتھ ساتھ دونوں ٹاور مکمل تباہ ہو گئے۔پہلا جہازبوئنگ 767صبح 8.46 پر جنوبی ٹاور سے ٹکرایا اور اس کے ٹھیک اٹھارہ منٹ بعد ایک دوسرا طیارہ شمالی ڑاور سے ٹکرایا۔ اگلے دو گھنٹوں میں دونوں ٹاور زمین بوس ہو چکے تھے۔اس حادثے میں 2801 افراد ہلاک ہوئے جن میں 147 ان جہازوں کے مسافر تھے۔افراتفری کا عالم تھا۔ ٹیلی فون، کمپیوٹر، بجلی ، صحت اور دیگر تمام چیزیں معطل ہو چکی تھیں۔ پہلا طیارہ ٹکرانے کے 32 منٹ بعد شہر کے اداروں کو اصل واقعات کا پتہ چلا تو وہ حرکت میں آئے۔اس وقت تک لوگوں میں اس قدر ہراس پھیل چکا تھا کہ وہ کسی طرح نیویارک سے بھاگنا چاہتے تھے۔لیکن انہیں بھاگنے کے لئے کوئی سواری میسر نہیں تھی۔وہ لاچار اور مجبور کسی راستے کی تلاش میں تھے۔ ایک امریکی بحری جہاز کا کپتان فریٹاس کہتا ہے کہ دس تاریخ کو میں بہت مصروف رہا ا۔شام کو واپس آئے ، ہمارے سارے مسافر چلے گئے اور بحری جہاز برتھ پر واپس چلا گیا۔ تو میں اور عملے کے لوگوں نے مل کر شراب پی ۔ پھر تھکاوٹ کے سبب رات کو اپنے کمرے میں پہنچ کر میں بستر پر لیٹا اور گہری نیند سو گیا۔ صبح سائرن بڑے زور سے بج رہا تھا۔ پہلے تو میں نے یہ روٹین کا سائرن سمجھا مگر چند منٹ پر وہ دوبارہ بجنا شروع ہو گیا ۔ تو میری آنکھ کھل گئی ۔ میں ٹہلتا ہوا باہر آیا کہ چلو ایک تو کافی پی جائے اور دوسرا کسی سے پوچھا جائے کہ کیا وجہ ہے جو سائرن زور زور سے بار بار بج رہا ہے۔وہ کافی شاپ پہنچا تو کافی دینے والے کی آنکھوں میں خوف کے سائے تھے۔فریٹاس نے اس سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ۔ اس نے ٹی وی سکرین کی طرف اشارہ کیا۔ فریٹاس مڑا تو اس نے دیکھا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا شمالی ٹاور جل رہا تھا اور پوری طرح دھویں میں ڈوبا ہوا تھا۔اسے فوری احساس ہوا کہ دھواں ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور اسی وجہ سے لوگ بھاگ ڈوڑ رہے ہیں۔وہ یکدم پلٹا اور اپنے ساتھیوں کی طرف بھاگا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کیسے کی جائے۔ اس وقت آسمان سے ملبے کی بارش ہو رہی تھی۔سارا شہر آگ کے دھویں میں ڈوبا ہوا تھا۔اس فضا میں سانس لینا مشکل تھا۔ سکولوں کالجوں کے بچے اور عام شہری وہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔مگر ٹرین کی آمدورفت رک گئی تھی۔ بروکلین جانے والا پل بند تھا زیر زمین راستے کام نہیں کر رہے تھے۔ مین ہٹن سے باہر نکلنے کا واحد راستہ سمندر تھا۔فریٹاس اپنے 52 ساتھیوں کو فوری طور پر برتھ پر پہنچنے اور جہازوں کو حرکت میں لانے کا کہا۔چند لمحوں میں وہاںمختلف طرح کے پانچ سو سے زیادہ بحری جہازحرکت میں تھے۔جن میںڈیڑھ سو کمرشل جہاز، ٹگ بوٹس، فیریز، چارٹر بحری جہاز اور کئی دیگر طرح کے جہاز شامل تھے۔ انہوں نے تھوڑی دیر میں زیریں مین ہٹن کے علاقے سے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانا شروع کیا۔ ہر جہاز کے عملے کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو وہاں سے منتقل کرے۔دوپہر ایک بجے تک پانچ لاکھ سے زیادہ خوف زدہ لوگوں کو اس خطرناک علاقے سے نکال کر نیو جرسی اور بروکلین جیسے محفوظ علاقوں میں پہنچایا۔یہ ایک ایسا عظیم کام تھا جس کو کسی پلاننگ کے تحت منطم طور پر نہیں بلکہ ہر ایک نے انفرادی حیثیت سے کیا اور اس کام میں بھرپور حصہ لیا۔ہر کشتی کے مالک نے کوشش کی کہ اس وقت جو لوگ اس مشکل میں ہیں انہیں وہاں سے نکالا جائے اور انہیں پانی خوراک اور دیگر جس چیز کی ضرورت ہے باہم پہنچائی جائے۔چنانچہ یہ فرض انہوں نے بخوبی نبھایا۔مصیبت زدہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بھاری رقمیں دے کر اکیلے جہاز میں کہیں جانا چاہتے تھے۔ مگر اس دن کسی کشتی والے نے کوئی بھی رقم لینے سے انکار کیا اور اس کام کو قومی اور رفاہی کام سمجھ کر کیا۔یہ وہ کام تھا جو کشتی والوں نے کسی بھی طرف سے کوئی پکار آنے سے پہلے بڑی حد تک اپنی ہمت اور جرأت سے انجام دیا۔تاریخ کے مطابق یہ دنیا میں مصیبت زدہ پانچ لاکھ انسانو ں کو بچا کر کشتیوں پر محفوط مقام تک پہنچانے کا سب سے بڑا واقعہ ہے اور اس کی سب سے عظیم بات کہ اس کام کی ابتدا لوگوں نے خود اپنی ذمہ داری سمجھ کر کی۔