میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ ایک دن ہم نے ایک سیاستدان کو بلایا کہ اس کے افکار سے مستفید ہوں، وہ سیاستدان تقریر کر رہے تھے کہ ہمارے مخالفین نے بے وجہ شور مچانا شروع کر دیا۔ مقصد ہماری تقریب کو سبوتاژ کرنا تھا۔ یہ 1973 کا واقعہ ہے۔ ان دنوں ہر یونیورسٹی دو رنگوں میں بٹی تھی ۔ ہر طالب علم یا تو سرخ تھا یا سبز اور سرخ اور سبز ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر وقت برسر پیکار ہوتے تھے۔مخالفوں کا شور روکنے کے لئے ہم نے انہیں پکڑ لیا۔ میرے ایک ساتھی لڑائی میں کوے سے زیادہ ذہانت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تگڑے تگڑے لڑکوں سے لڑنا ان کو مارنا اور ان سے مار کھانا ، میرے جیسے لوگوں کا کام تھا۔میرے وہ ساتھی میدان میں اترے، ایک مریل سے مخالف کو جو سائیڈ پر بیٹھا تھا، پکڑا، دو تھپڑ مارے، اس کی قمیض کھینچی۔ پھاڑ کر ہاتھ میں  لہرانا شروع کر دیا۔اسی بات میں ان کی دھاک بیٹھ گئی کہ انہوں نے مخالفوں کے کپڑے اتار کر انہیں ننگا کر دیا ۔ واہ واہ کیا کمال کر دیا۔مجھے اس دن سے یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ آ گئی کہ جب بھی آپ نے اپنا تاثر بہتر کرنا ہے تو عضو ضعیف کو نشانہ بنائو،آپ کا مستقبل روشن رہیگا اور جو ضعیف ہے وہ آپ کا کیا بگاڑے گا۔ صحت اور تعلیم دو ایسے محکمے ہیں کہ جہاں کے لوگ بھی بہت سارے معاملات میں ضعیف ہیں،وہ اتنے با اثر نہیں ہوتے جتنے کہ دوسرے محکمے۔خصوصاً وہ محکمے جو لٹھ ردار ہیں،ان کے لوگ اثر کے معاملے میں عروج پرہوتے ہیں۔ان محکموں کے لوگ کچھ بھی کریں کوئی انہیں نہیں پوچھتا اور نہ پوچھ سکتا ہے۔ کسی چیف منسٹر کو بلی مارنی ہوتی ہے تو وہ بھی عضو ضعیف یعنی صحت یا تعلیم کا رخ کرتا ہے۔ ان میں غیر ضروری کیڑے نکال کر لوگوں کو خوش کرتا اور داد لیتا ہے۔یوں وہ لٹھ برداروں سے بھی بچ جاتا ہے اور تاثر بھی خوب بنتا ہے۔حالانکہ ڈاکٹر اور استاد اپنے وقت سے دائیں بائیں نہیں ہو سکتے۔ خصوصاً استاد کلاس میں بھی ایک لمحہ فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔تین چار گھنٹے پڑھانے کے لئے چار پانچ گھنٹے تیاری بھی کرتا ہے۔ رزق حلال کھاتا اور اپنے جائز وسائل میں زندہ رہتا ہے۔ ہمارے دفتروں کاوقت صبح آٹھ بجے ہے تو جناب چیف منسٹر سول سیکٹریٹ کا ایک چکر دس بجے بھی لگا کر دیکھ لیں کوئی سیکرٹری دفتر میں موجود نہیں ہوگا مگر سیکرٹری سے پنگا کون لے۔چھوٹے چھوٹے دفتروں کا تو بس اﷲہی حافظ ہے۔چند دن پہلے مجھے ایک ذاتی تجربہ ہوا ۔ میں نے ایک خط کہیں سے مارک کروا کر ایک محکمے کو بھیجا تھا،سرکاری ڈائری نمبر میرے پاس تھا۔ سوچا پتہ کروں کہ اس خط کے ساتھ کیا بیتی۔ جمعہ کا دن تھا۔ اندازہ لگا کر کہ دس بجے دفتر شروع ہو چکا ہو گا، میں دس بجنے سے سات یا آٹھ منٹ پہلے اس دفتر پہنچ گیا۔گیٹ پر استقبالیہ میں ایک صاحب انٹری رجسٹرڈ لیے ایک دو بندوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ پوچھا کہ کس سے ملنا ہے اور کیا کام ہے ۔ میں نے بتایا تو کہا،اس طرف تیسرے کمرے میں چلے جائیں۔اس نے جس طرف اشارہ کیا تھا وہاں ایک یو شیپ کا برآمدہ تھا اور پیچھے کچھ کمرے ۔ میں چل پڑا۔ ایک دو تین ، تینوں کمروں پر زبردست قسم کے تالے تھے۔ میں پورا برآمدہ گھوم گیا۔ نو یا دس کمرے تھے اور سبھی پرشاندار چمکتے دمکتے تالے تھے۔ میں نے واپس آکر اس استقالیہ والے کو بتایا کہ وہاں کوئی دفتر نہیں کھلا ۔جواب ملا، کہ انتظار کریں۔سب کھل جائے گا۔کب کھلے گا اس کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں تھا۔وہاںبیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ شدید دھوپ اپنے جوبن پر ، میں جلتا بدن لئے مجبوری میںکچھ دیر آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گیارہ بجنے والے تھے میں نے ایک چکر پھر لگایا۔تیسرا کمرہ تو اسی طرح بند تھا البتہ آگے ایک کمرے کا تالہ کھلا تھا مگر کنڈی بند تھی۔ یہ امید کی پہلی کرن تھی جو اس اندھیرے میں دکھائی دی۔دو تین منٹ بعد ایک صاحب آتے دکھائی دئیے۔ آتے ہی پوچھنے لگے کہ کس سے ملنا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کمرے میں کوئی۔ کہنے لگے میں نے تالہ کھولا ہے آئیں کمرہ بھی کھول لیتے ہیں۔کمرہ کھلا تو میں نے اپنا مطمع نظر بیان کیا۔ کہنے لگے بیٹھیں ابھی فلاں آئے گا تو آپ کا مسئلہ حل ہو گا۔ساڑھے گیارہ بجے تک ایک جمعدار کے علاوہ کوئی نہیں آیا تھا۔ ایک صاحب اور آئے ۔ پہلے صاحب نے میرا مسئلہ انہیں بتایا۔ کسی مفکر کی طرح انہوں نے غور کیا اور کہنے لگے ۔آپ آدھ گھنٹہ اور ٹھہریں، دیکھیں کوئی نہ کوئی آ ہی جائے گا۔میں نے عرض کی کہ مجھے یونیورسٹی تک جانا ہے اجازت دیں تو ہو آئوں۔ کہنے لگے ضرور ضرور۔ مگر واپس آنا آپ کا بے ثمر نہ جائے ۔وجہ یہ ہے کہ آج جمعہ ہے اور ساڑھے بارہ بجے سب نے جمعے کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ آپ کو شاید کوئی ملے ہی نہ اور ملا بھی تو جمعے کی جلدی ہو گی۔ ہم لوگ آپ کی خدمت نہیں کر سکیں گے۔ اتنے دیں دار لوگ ، میں کیوں ان کے جمعے میں رکاوٹ بنتا۔میں نے عرض کی کہ ہفتے کو اگر آپ کو چھٹی نہیں تو میں ہفتے کو آ جائوں۔کہنے لگے یہ زیادہ بہتر ہے مگر ہفتہ بڑا عجیب سا دن ہے ۔گائوں یا لاہور سے دور رہنے والے عموماًگھروں کو نکل جاتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ آپ کو پریشانی ہو۔ کام دفتروں میں پہلے چار دن ہی ہوتا ہے آپ انہی دنوں میں آئیں تو زیادہ بہتر ہے۔ میں اٹھا اور کہا کہ میں انشا اﷲاب پیر کو گیارہ بجے آپ کے پاس ہوں گا۔ بالکل ٹھیک مگر آپ منگل کر لیں تو زیادہ بہتر ہے،پیر کو بعض اوقات لوگوں کو گھروں سے واپس آنے میں دیر بھی ہو جاتی ہے۔ آپ معزز آدمی ہیں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو چکر پڑے۔ بہتر ہو گا آپ منگل کو تشریف لائیں۔ لیکن گیارہ ساڑھے گیارہ یاد رہے۔ ہم ویسے تین بجے تک بیٹھے ہوں گے۔ لیکن یاد رکھیں ایک سے ڈھائی بجے تک نماز کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس وقت سارے نماز میں مصروف ہوتے ہیں۔ باقی تین بجے تک ہم یہیں آپ کی خدمت کو حاضر ہونگے۔ میں نے ایک لمبی سانس لی ، اٹھا۔ ان سے اجازت لی اور ابھی تک دوبارہ ان کی طرف نہیں جا سکا۔ مگر ان حالات کے بارے جب غور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس قدر دین دار اور نمازی پرہیز گار قوم کی حالت پر ہنسوں یا روئوں۔ ہنسنا اپنا ہی تمسخر اڑانا ہے اور رونا کمزور ہونے کی نشانی ہے اور میں کمزور نہیں۔ بقول خلیل جبران میں اپنے غم کے بل پر ہنوز طاقتور ہوں۔