پاکستان میں نہروں میں دودھ نہیں بہتا، حیرت یہ کہ ان نہروں میں اب پانی بھی نظر نہیں آتا۔دوسری طرف پچھلے کئی سال سے سیلاب آتا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں،فصلیں تباہ اور مویشی ہلاک ہوتے ہیں۔یہ پانی نہروں میں آجاتا تو کھیت سبز ہو جاتے۔ ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ گورننس ٹھیک نہیں۔لوگ کاروبار کرتے ہیں، لاکھوں روپے روز کماتے ہیں لیکن ٹیکس کا ریکارڈ مرتب نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں خدشہ ہے ایک بار ٹیکس ریکارڈ میں آ گئے تو سرکاری عمال پریشان کریں گے،پولیس تھانوں کی عمارات شاندار بن رہی ہیں، افسران کے پاس وہ گاڑیاں ہیں جو یورپ کی پولیس کو بھی میسر نہیں، جدید ہتھیار ہیں لیکن مجرم پولیس سے ڈرتے نہیں،یہ بیڈ گورننس ہے۔بچے موبائل فون کو تعلیم کے لئے استعمال کرنے کی بجائے سماجی اقدار کا جنازہ نکالنے والی تفریح کے لئے استعمال کر رہے ہیں،خاندانی و سماجی گورننس خراب ہونے کا یہ نمایاں پہلو ہے۔ریاست، سماج، نجی شعبہ اور فرد کی گورننس کے دائرے الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ایک مقام پر ان کا اتصال ہوجاتا ہے۔ہمارے ہاں سبھی دائروں میں گورننس مفقود ہے اس لئے ہماری بربادی کی رفتار باقی پسماندہ قوموں سے تیز نظر آتی ہے۔ اصلاح کا پہلا اور سب سے اہم قدم یہ تسلیم کرنا ہے کہ مسئلہ درحقیقت ادارہ جاتی نوعیت کاہے۔پاکستان کی معاشی اور حکومتی پریشانیوں کی وضاحت کے لیے کئی برسوں کے دوران متعدد بیانیے بنائے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین بتاتے ہیں کہ حالیہ دہائیوں میں پاکستان کی معاشی بدحالی کی وضاحت کرنے کے لییکس طرح سیکورٹی ، دہشت گردی، غیر ملکی امداد کی آمد،حکومتوں کی ترجیحات، بیرونی اقتصادی ماحول اور عوامی اخراجاتمیں تبدیلی جیسے عوامل کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ گورننس ایک تنظیم یا معاشرے کے اندر فیصلے کرنے اور نافذ کرنے کا عمل ہے۔ یہ عمل فیصلہ سازی، قاعدے کی ترتیب اور کسی تنظیم یا معاشرے کے کام کاج کی رہنمائی کے لیے نفاذ کے طریقہ کار پر مشتمل ہے۔ گڈ گورننس اس پیمائش کا عمل ہے کہ کس طرح سرکاری ادارے عوامی معاملات کو چلاتے ہیں اور عوامی وسائل کا انتظام کیسے کرتے ہیں ، بنیادی طور پر بدعنوانی سے پاک اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے انسانی حقوق کے حصول کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس تناظر میں گورننس کا اطلاق کارپوریٹ، بین الاقوامی، قومی، یا مقامی گورننس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر شعبوں کے درمیان تعاملات پر بھی ہو سکتا ہے۔ Lawson نے روتھسٹین کی کتاب "حکومت کا معیار: بدعنوانی، سماجی اعتماد، اور بین الاقوامی تناظر میں عدم مساوات"کے جائزے میں ذکر کیا ہے کہ مصنف نے اچھی حکمرانی کا تعلق غیر جانبداری کے تصور سے جوڑا ہے، جو بنیادی طور پر اس وقت ہوتا ہے جب بیوروکریٹس اپنے کام اپنے مفاد کی بجائے عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ لاسن کا اس سے اختلاف ہے کہ قانون کا یہ غیرجانبدارانہ اطلاق معاشی لبرل ازم جیسے اہم عوامل کو نظر انداز کرتا ہے، جو اقتصادی ترقی کے ساتھ اس کے تعلق کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یک جماعتی حکومتوں کی کارکردگی شاید دلکش لگتی ہے، لیکن رہنماؤں کو ملک کے طاقت کے ڈھانچے اور "اخلاقی معیشت" کے بارے میں گہری سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی کتاب خطے میں سرمایہ داروں اور آمروں کے درمیان نازک تعلقات کی کھوج کرتی ہے۔ گڈ گورننس کو فروغ دینے کے لیے تین اداروں میں اصلاحات کی جا سکتی ہیں: ریاست، نجی شعبہ اور سول سوسائٹی۔ تاہم مختلف ملکوں میں، اصلاح کی ضرورت اور اس کا مطالبہ وہاں کے معاشرے کی ترجیحات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مختلف قسم کے ملکی سطح کے اقدامات اور بین الاقوامی تحریکیں مختلف قسم کی گورننس اصلاحات پر زور دیتی ہیں۔ اصلاحات کے لیے ہر تحریک اپنی ضروریات اور ایجنڈوں کی بنیاد پر وہ معیار قائم کرتی ہے جسے وہ گڈ گورننس سمجھتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری میں نمایاں تنظیموں کے لیے گڈ گورننس کے معیارات کی مثالیں بہر حال ہمیں ترغیب دیتی ہیں کہ اپنے معیار بہتر بنائیں ۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں بنیادی تبدیلی اس کے آس پاس کی ہر چیز پر بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ جانوروں کے قدرتی مسکنوں میں انسانی تجاوزات کی مثال لیں۔ جنگل میں ترقی، درختوں کو کاٹ کر اور عمارات کی تعمیر ، جانوروں کے رویوں اور نمونوں کو متاثر کرتی ہے۔اس طرح کی مستقل تبدیلی جانوروں کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کرتی ہے۔ شکاری اور شکار ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان تصادم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جنگلی جانور علاقیکے لیے لڑتے ہیں۔ خوراک میں کام آنے والے جانور بقا کی اضافی جبلت پیدا کرتے ہیں۔ کچھ انواع معدوم ہو جاتی ہیں، دوسری کثرت میں بڑھتی ہیں۔ سیاسی نظام کے ذریعے معقول لیڈر شپ نہ ملنے اور دیگر وجوہات کے باعث بدقسمتی سے پاکستان مضبوط اداروں اور گڈ گورننس کے تمام اشاریوں پر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جن میں آمدنی میں عدم مساوات، جی ڈی پی، فی کس آمدنی، افرادی قوت کی مہارت، شمولیت، اقتصادی مواقع، اور عوامی ملکیت اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں تک رسائی شامل ہے۔ڈاکٹر عشرت حسین کا استدلال ہے کہ کمزور اداروں میں ظاہر ہونے والی ناقص گورننس صدی کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کی غیر تسلی بخش معاشی اور سماجی کارکردگی کی بنیادی وجہ ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومتی اداروں کے معیار، مضبوطی اور جوابدہی کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ معاشی اور سماجی پالیسیاں آمدنی میں اضافے اور فوائد کی منصفانہ تقسیم میں ڈھل سکیں۔ پاکستان میں بہت طویل عرصے سے، کمزور اداروں اور کمزور قیادت کی وجہ سے درست معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سویلین اداروں کی طرف سے گورننس میں پیدا ہونے والے خلا کو عسکری اداروں نے پْر کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے وہ عوامی پالیسی سازی اور نفاذ میں ایک بڑا کھلاڑی بن جاتے ہیں۔مثالی سول ملٹری توازن کو بحال کرنے کے لیے سویلین اداروں کو اپنی حکمرانی کی صلاحیت کو بحال کرنا ہو گا ۔یہ عمل ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ مل کر، ہمیں بحالی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔یورپ ،امریکہ ،کینیڈا اور آسٹریلیا اس لئے امیر غریب کے لئے مساوی مواقع رکھتے ہیں کہ وہاں گورننس اچھی ہے،ہم اس لئے پریشان رہتے ہیں کہ ہم کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر رہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ایسی چنیدہ اصلاحات جاری رہیں گی جن سے بااثر اشرافیہ کو فائدہ پہنچتا ہے جب کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا رہے گا۔