عاشورہ محرم سے دو روز قبل گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے "C.P.N.E" (مدیرانِ اخبارات و جرائد کی تنظیم ) کے عہدیداران اور سینئر کالم نگاران کو گورنر ہائوس لاہور میں ظہرانے پر مدعو کر کے اُن سے کہا کہ ’’مَیں آج مُلک کے نامور ’’اہلِ قلم اور اہل نظر‘‘ سے مخاطب ہو کر اعتراف کر رہا ہُوں کہ ’’ جمہوریت کے تسلسل اور سیاسی استحکام کے لئے آپ کے طبقے کا اہم کردار رہا ہے ۔ مَیں قوم کو یقین دلانا چاہتا ہُوں کہ ’’ احتساب ‘‘ محض پاکستان تحریک انصاف کا نعرہ ؔ ہی نہیں بلکہ  وزیراعظم عمران خان سے لے کر عام کونسلر تک سب کا احتساب ہوگا۔ مجھے اور میر ی حکومت کو ظلم، نا انصافی اور کرپشن کے خلاف آپ لوگوں کی راہنمائی درکار ہے!‘‘۔ 

 معزز قارئین! گورنر ہائوس میں موجود ’’ اہلِ قلم‘‘ اور ‘‘اہلِ نظر‘‘ نے (گورنر چودھری محمد سرور کو ) اپنے اپنے انداز میں قوم کے مفادات میں جو تجاویز پیش کیں وہ قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر شائع اور ٹیلی کاسٹ ہو چکی ہیں ۔ ’’احتساب ‘‘ کے موضوع پر علاّمہ اقبالؒ نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں بہت کچھ کہا ہے اُن کی ایک اردو نظم ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ ( Parlement) میں ابلیس نے اپنے مشیروں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا / ہے کہ…

ہر نفس ڈرتا ہُوں اِس اُمت ؔکی بیداری ؔسے مَیں !

ہے حقیقت جِس کے دِیں کی احتسابِ کائنات!

شارحِ اقبالؒ ۔ مولانا غلام رسول مہرؔنے علاّمہ صاحب کے اِس شعر کا یہ مفہوم بیان کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ ابلیس ۔ اُمّت مُسلمہ کی بیداری سے خوف زدہ ہے کہ جو ’’احتساب ِ کائنات‘‘( اِنسانوں کے اچھے بُرے اعمال کا جائزہ لے کر اُن کابھی احتساب کرسکتی ہے!) ‘‘ لیکن معزز قارئین!۔ کیا محض ایک بار ۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد ہی پاکستان میں بسنے والی اُمّت ِ مُسلمہ اتنی بیدار ہو چکی ہے کہ’’ابلیس بھی اُس سے ’’ہرنفس ‘‘( ہر دَم )خوفزدہ ہورہا ہو؟۔ علاّمہ صاحب کی ایک فارسی نظم ’’ لا الہ اِلا اللہ ‘‘ کا ایک شعر ہے کہ …

لَا و اِلَّا احتساب ِ کائنات

لَا و اِلَّا فتح باب کائنات 

یعنی۔ ’’ لَا و اِلَّا سے کائنات کا احتساب ہے۔لَا و اِلَّا سے کائنات ( کی برکتوں) کا دروازہ کُھل جاتا ہے‘‘۔ 

جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد 18 اگست کو جناب عمران خان نے ’’ قائدِ ایوان‘‘ اور پھر وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھا کر نظام سلطنت سنبھالا تو 20اگست کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ "Strong Executive Imran Khan" ۔ اگرچہ 1973ء کے ترامیم در ترامیم کے آئین کے مطابق صوبائی گورنرز کے کچھ زیادہ اختیارات نہیں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ’’ عوام کے مقبول ترین قائد (اور اپنے قائد ) وزیراعظم عمران خان کے اعتماد پر پورا اُترنے کے لئے گورنر چودھری محمد سرور اور باقی صوبوں کے گورنر ز بھی عوام کی بھلائی کے لئے اپنے اپنے صوبے میں "Strong Executive" کا کردار ادا کریں گے‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ مَیں ستمبر1981ء میں پہلی مرتبہ برطانیہ کے ڈیڑھ ماہ کے سرکاری دورے پر گیا تو ایک ہفتہ سکاٹ لینڈ کے شہر ’’ گلاسگو‘‘ میں بھی رہا۔ وہاں فوراً ہی میری دوستی (اُن دِنوں ) ’’ بابائے گلاسگو‘‘ ملک غلام ربانی سے ہوگئی۔ جو بعد میں ’’ بابائے امن ‘‘ کہلائے۔ ’’ بابائے امن ‘‘ ہی نے مجھے بزنس مین چودھری محمد سَرور سے متعارف کروایا۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ ’’چودھری محمد سَرور 18 اگست 1952ء میں پیر محل ( ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں پیدا ہُوئے اور 1976ء میں گلاسگو سیٹل ہوگئے تھے ۔ اُنہی دِنوں مجھے معلوم ہُوا کہ ’’ چودھری صاحب کے والد محترم چودھری محمد عبداللہ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور اُنہوں نے مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کے گائوں ’’کھیرا ں والا ‘‘کے مسلمانوں کی حفاظت اور اُن کی با عِزّت پاکستان کی طرف ہجرت میں اہم کردار ادا کِیا ۔ 

پھر جب میرے تین بیٹے برطانیہ میں سیٹل ہوگئے تو میرا جب بھی اُن سے ملاقات کے لئے لندن جانا ہوتا تو مَیں ایک پھیرا ؔگلاسگوکا بھی لگاتا ۔ پھر لاہور کے بعد گلاؔسگو میرادوسرا ’’خوابوں کا شہر ‘‘ بن گیا۔ میری ایک نظم کے تین شعر ہیں …

جدوجہد جہد کی امر کہانی!

بابائے امن غلام ربانی!

…O…

امن و سکوں کا سفینہ جیسے!

لوگ ہیں ہلِ مدینہ جیسے!

…O…

سب سے نِرالا سب سے جُدا ہے!

شہر گلاسگو شہر وفا ہے!

5 اگست 2013ء کو چودھری محمد سرور نے گورنر کا عہدہ سنبھالا تو حلف برداری کی تقریب میں برطانیہ کے مختلف شہروں کے بزنس مین (فرزندانِ پاکستان) بھی موجود تھے ۔اکتوبر 2013ء کے اوائل میں گورنر چودھری محمد سرور برطانیہ کے دورے پر گئے ، اِتفاق سے اُسی دَور میں مَیں بھی اپنے بیٹوں اور اُن کے اہل و عیال کے ساتھ چھٹیاں گزارنے لندن گیا تھا ۔ 8 اکتوبر 2013ء کو لندن کے ایک بہت بڑے ہوٹل میں "The Community of London"  کی طرف سے پاکستانی نژاد  "Eleven Businessmens" ۔ نے گورنر چودھری محمد سَرور کو پاکستان میں بھرپور سرمایہ کاری کا یقین دلایا۔ 

وہ بہت بڑی تقریب تھی ، جِس میں مجھے 1961ء سے میرے سرگودھوی دوست اور 1983 ء سے لندن میں مقیم بزنس مین ۔ "Labour Party" کے ایک لیڈر سیّد علی جعفر زیدی اور میرے قانون دان بیٹے انتصار علی چوہان کو بھی مدعو کِیا گیا تھا۔ تقریب کے آغاز سے پہلے ہال میں پہلے سے چودھری محمد سرور کے فرزند گلاسگو سے ’’برطانوی داراُلعوام‘‘ (House of Commons ) کے منتخب رُکن اور داراُلعوام میں لیبر پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر ، چودھری انس سرور نے ہال میں پہلے سے نصب بہت بڑی "Screen" پر 1976ء سے 4 اگست 2013ء تک چودھری محمد سرور اور اور اُن کے خاندان کی جدوجہد کی داستان دِکھائی گئی تھی جِس کا عنوان تھا "Journey of Hope" ( یعنی۔ امید کا سفر)۔

پنجاب کے گورنر کی حیثیت سے چودھری محمد سرور کا ’’ امید کا سفر‘‘ 5 اگست 2013ء سے 29 جنوری 2015ء تک جاری رہا۔ اِس دَوران چودھری محمد سَرور نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے (بھارت کی مخالفت کے باوجود )پاکستان کو یورپی یونین سے "G.S.P Plus" دِلوایا جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کا حجم 13 بلین ڈالر سے بڑھ کر26 بلین ڈالر ہوگیا۔ حالانکہ اِس سے قبل اُس دَور کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار ، وزیر تجارت جناب خرم دستگیر اور مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز ناکام رہے تھے ۔ چودھری محمد سَرور نے اپنے ذاتی دوست (برطانیہ کے سابق وزیراعظم) اور امورِ تعلیم کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی "Mr.Gordon Brown" کے ذریعے پاکستان کی تعلیمی ترقی کے لئے یورپی یونین سے 10 کروڑ ، امریکہ سے 14 کروڑ اور اقوام متحدہ سے 16 کروڑ ڈالر کی گرانٹ دِلوائی۔ 

"Journey of Hope" کے اِسی مرحلے میں چودھری محمد سَرور نے اندرون اور بیرونِ ملک فرزندان و دُخترانِ پاکستان کے تعاون سے نہ صِرف پنجاب بلکہ دوسرے صوبوں کے تعلیمی اور رفاہی اداروں میں بھی پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے "Solar Filtration Plants" نصب کرائے۔ اِ س سے پہلے کسی گورنر نے اِس طرح کا نظام قائم نہیں کِیا تھا ۔ پھر کیا ہُوا ؟۔ شریف برادران ( وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف) چودھری محمد سَرور کی مقبولیت سے خائف ہونے لگے تھے ۔ یہی وجہ ہُوئی کہ  مارچ 2014ء کے اواخر میں وزیراعظم نواز شریف برطانیہ کے دَور ے پر گئے تو وہ  شہباز شریف کو اپنے ساتھ لے گئے لیکن 1997ء سے 2013ء تک ، داراُلعوام کے مقبول سابق منتخب رُکن چودھری محمد سَرور کو چھوڑ گئے۔ 30 جنوری 2015ء سے تا دمِ تحریرپاکستان تحریک انصاف کے (سابق سینیٹر)اور موجودہ گورنر پنجاب کے "Journey of Hope" کا نیا مرحلہ جاری ہے۔ علاّمہ اقبالؒ نے با عزّت طور پر زندگی کا سفر طے کرنے والے ہر مسافر سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …

ہر اِک مقام سے آگے ، مقام ہے تیرا!

حیات ، ذوقِ ؔسفر، کے سِوا کچھ اور نہیں!