شیراںوالاگیٹ سے اندرون شہر داخل ہوںتو تھوڑی سی چڑھائی چڑھنے کے بعد آپ کو دائیں طرف مشہور سکھ دیوان دھیان سنگھ کی حویلی نظر آئے گی۔ دھیان سنگھ مہاراج رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھا۔ بعد میں وہ شہزادہ شیر سنگھ کا وزیر اعظم بنا۔جب کچھ سکھ شہزادے شیر سنگھ کو قتل کرنے آئے تو دھیان سنگھ کی چشم پوشی کے سبب شیر سنگھ مارا گیا۔بعد میں قاتلوں نے دھیان سنگھ کو بھی نہ چھوڑا اور اسے بھی ہلاک کر دیا۔ دھیان سنگھ کی اس حویلی کی اپنی تاریخ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ حویلی بنیادی طور پر سردارخوشحال سنگھ کی ملکیت تھی۔ جسے بعد میں دھیان سنگھ نے قبضے میں لے لیا اور ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے مکانات خرید کر اس کے رقبے میں خاصی توسیع کی۔ اس حویلی کے تین حصے ہیں ۔ جو اصل مرکزی حصہ ہے وہ خوشحال سنگھ کا تعمیر کردہ ہے۔ایک چھوٹی حویلی سردار تیجا سنگھ کی بنائی ہوئی ہے اور تیسرا کچھ حصہ بہت بعد کا تعمیر شدہ ہے۔سکھوں کے دور کے خاتمے پر وہ لوگ جن کے مکان ہتھیائے گئے تھے واپس آگئے اور ان لوگوں نے ا س حویلی کی زمین پر کئی محلے آباد کر لئے۔جس سے حویلی پھر سمٹ کر چھوٹی ہو گئی ۔مگر حویلی کی عمارات اور اس کا بہت سا حصہ لوگوں کے قبضے سے محفوظ رہا ۔ اب وقت کے ساتھ یہ بہت بوسیدہ ہو گئی ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی نے اس کی بحالی کا کام برسوں کیا اور اب یہ قدرے بہتر حالت میں ہے۔چند سال پہلے بھی اس کی ایک دیوار گر گئی تھی جو وہاں پڑھنے والی موجودہ طالبات کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔کہتے ہیں پہلے اس حویلی سے ایک سرنگ شاہی قلعے کو جاتی تھی مگر اب اسے بند کر دیا گیا ہے۔اس بلڈنگ کے تہہ خانوں میں دھیان سنگھ اور اس کے بیٹے ہیرا سنگھ کے دفاتر تھے۔ سکھوں نے ہیرا سنگھ کو انہی تہ خانوں میں قتل کیا تھا۔ انگریز جب اقتدار میں آئے تولاہور میں ان کو عبادت کے لئے جگہ درکار تھی۔وقتی طور پر عبادت کے لئے انہوں نے اس حویلی کو منتخب کیا اور اسے گرجا حویلی دھیان سنگھ کا نام دے کر اس کی مرمت اور تزئین کا اہتمام کیا ۔اس مقصد کے لئے سرکاری خزانے سے مبلغ 341 روپے اور کچھ پیسوں کی رقم مخصوص کی گئی۔ یہاں چالیس بنچ ،تین پنکھے اور ایک چوکی مہیا کئے گئے۔جہاں ضرورت تھی وہاں بانس کی چھتیں ڈالی گئیں۔ جب انارکلی بازار میں پروٹسٹنٹ فرقے کے نئے تعمیر شدہ گرجے کی ابتدا ہوئی تو اس عمارت کا عارضی گرجا ختم کر دیا گیا۔اس کے بعد کچھ عرصہ اس عمارت میں اسسٹنٹ کمشنر کا دفتر بھی رہا۔ یکم جنوری 1864 کو لاہور کا گورنمنٹ کالج اسی حویلی میں قائم ہوا ۔ لاہور کے عظیم محسن سر گنگا رام اسی حویلی میں گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے۔ گو کالج کی منظوری 1856 میں ہو چکی تھی مگر اساتذہ کے لئے انگلستان کی درس گاہوں آکسفورڈ، کیمرج، ڈبلن وغیرہ کا فارغ التحصیل ہونا ضروری تھا ۔چنانچہ اساتذہ کی دستیابی میں کچھ وقت لگا اورجب تمام استادمل گئے تو پھر کالج وجود میں آیا۔کالج کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لئیٹنر تھے جنہوں نے بعد میں پنجاب یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔گورنمنٹ کالج اپریل 1871 تک اس حویلی میں رہا۔ پھر اس کے بعد موجودہ عمارت کے نزدیک ایک گھر میں شفٹ ہوا جہاں سے اسے رحیم خان کی کوٹھی میں شفٹ کر دیا گیا۔حویلی دھیان سنگھ کو بعد میں محکمہ تعلیم کے سپرد کر دیا گیا۔ جس نے یہاں گورنمنٹ ڈسٹرکٹ سکول قائم کیا۔ سکول کے قیام کے دوران اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب اسے کافی نقصان پہنچا۔ بہت توڑ پھوڑ ہوئی چنانچہ عمارت کو خطرناک قرار دے کر خالی کرا لیا گیا اور سکول وہاں سے شفٹ ہو گیا۔نوے کی دہائی میں بلڈنگ کی بحالی اور تعمیرو مرمت کے بعد وہاں بچیوں کا ایک کالج قائم کیا گیا ہے جس کا نام فاطمہ جناح گرلز کالج ہے۔ اس سے پہلے شہر کے اندر اور قریب کوئی کالج نہ تھا۔ اندرون شہر کی بچیوں کو اسلامیہ کالج کوپر روڈ،کوئین میری کالج، لاہور کالج اور کنیئرڈ کالج جانا پڑتا تھا۔چنانچہ اس کالج کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لئے بلال گنج کالج اور راوی روڈکالج بنا کر علاقے کی ضروریات کو پورا کیا گیا۔ گنگا رام کا ذکر چلا تو اس کی لاہور کے لئے بے پناہ خدمات ہیں جن کی بنا پر اسے فادر آف لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ گنگا رام 13 اپریل 1851میں شیخوپورہ کے ایک گائوں مانگٹانوالا میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ اب ننکانہ صاحب کے علاقے میں شامل ہے۔ ان کے والد دولت رام اگروال پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور اس علاقے میں تعینات تھے۔بعد میں وہ امرتسر چلے گئے اور وہاں کچہری میں کاپی رائٹر کا کام کرنے لگے۔ان کا تعلق ہندوئوں کے کھتری خاندان سے تھا۔گنگا رام 1869 سے 1871 تک دو سال گورنمنٹ کالج میں گزارنے کے بعد تھامسن سول انجیئنر نگ کالج روڑکی چلے گئے جہاں سے انہوں نے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پہلے دہلی میں ملازمت کی ۔ پھر موجودہ ساہیوال کے بارانے علاقے کو زرخیز علاقے میں بد لا اور لاہور آنے کے بعد لاہور کی شکل بدلی۔ گنگا رام ایک انجینئر تھا۔ جس نے لاہور کا جنرل پوسٹ آفس، لاہور میوزیم، ایچیسن کالج، میو سکول آف آرٹ جو آج نیشنل کالج آف آرڈ کہلاتا ہے، لیڈی میکلیگن گرلز سکول، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ، گورنمنٹ کالج کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ اور 1943 میں550 بیڈ کاگنگا رام ہسپتال سمیت بہت سی بلڈنگز ڈیزائن کیں اور بنوائیں۔ لاہور کے بہترین علاقے ماڈل ٹائون کا نقشہ بھی انہی کی کاوش ہے۔ لاہور کے موجودہ جیل روڈ پر گنگا رام نے ایک گرلز ہائی سکول بھی بنایا جس کو تقسیم کے بعد کالج کا درجہ دے دیا گیا اور آج وہ لاہور کالج برائے خواتین یا لاہور کالج یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔راوی روڈ پر اپنی ایک بڑی عمارت معذور بچوں کو دی۔ پنجاب یونیورسٹی کی گرائونڈ کے سامنے اپنا ذاتی گھر پنجاب یونیورسٹی کو دیا جو آج ہیلی کالج آف کامرس اینڈ بنکنگ کے نام سے موسوم ہے۔لاہور پر گنگا رام کے اس قدر احسانات ہیں کہ انہیں چند لفظوں میں بیان کرنا خاصہ دشوار ہے۔