اس دور پر فتن میں جب کہ ہر لمحہ ہر پل زیست کرنا مشکل ہوتا جارہا ہو ۔چہروں پر شادابی کی جگہ پریشانی ہویدا ہو اورحواس حوالہ ء شعلگی ہو چکے ہوں۔ ہر سو بیزاری بے دلی براجمان ہو تو پھر کوئی اچھی کتاب ، کوئی خوبصورت شعر ، کوئی حسین منظر یا پھر کسی یار دیرینہ کی صحبت ہی تشفی کا باعث ہو تی ہے۔اس با ر اس کیفیت میں ایک شعری مجموعہ شامل مطالعہ رہا ۔ شاعری لطیف احساسات کا نازک اور خوبصورت اظہاریہ ہے جو جذبات و احساسات، مشاہدات ، تجربات اور مطالعہ سے اپنا اسلوب تراشتا ہے۔ لفظوں کی حسن ترتیب اور معنویت کی موجودگی سے اچھی شاعری جنم لیتی ہے ۔ ایک اچھی شعری کاوش وہی ہے جو اپنی معنویت اور الفاظ کی خوبصورتی کے ساتھ ذہن و دل پر نقش ہو جائے اور قاری کچھ وقت کے لئے آنکھیں بند کئے اس سے لطف کشید کرتا رہے۔ ’’ مجال ‘‘ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی ایسی ہی ایک شعری تخلیق ہے۔ تعلیم و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر اشفاق ورک اپنی مزاح نگاری کے باعث علمی حلقوں میں پہلے ہی شناخت منوا چکے ہیں ۔دھیمے انداز میںلفظوں سے کھیلتی ہوئی ان کی گدگداتی تحریریں پڑھنے والے کے لبوں پر مسکان سجانے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہیں۔کہیں طنز ، کہیں مزاح ،کہیں ترکیب لفظی سے چھیڑ چھاڑ اور کہیں لفظوں کی حسن ترتیب سے نت نئے معنی تراش لینا۔ان کی سجی سجائی نثری تخلیقات سے سب ہی واقف ہیں۔مگر اب ان کی یہ مجال کہ شاعری بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہ رہ پائی اور مجال کے نام سے ان کا شعری مجموعہ اہل ذوق و نظر سے داد و تحسین کا منتظر ہے۔شاعری سے اپنے تعلق کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں : ’’میرے ساتھ شعر کا رشتہ عاشق اور محبوب کا سا ہے ۔ شاعری کو میں نعمت خداوندی سے تعبیر کرتا ہوں ۔ اچھا شعر میرے حواس ہشتہ ( سامعہ۔باصرہ، شامہ،ذائقی، چھٹی حس، حس جمال، حس مزاح) کے برگ وگل پہ شبنم کی صورت ورود کرتا ہے ۔ دل اس کی لطافت و تاثیرسے بھر جاتا ہے۔‘‘ ان کے اس شعری مجموعے میں حمد و نعت ،غزلیں اورنظمیں ہیں جو سنجیدہ موضوعات کے ساتھ فکر تازہ کی نوید لئے ہوئے ہیں۔ اہل پنجاب کی اردو سے محبت اور وابستگی اور اس کی ترقی و ترویج میں ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے ۔ڈاکٹر اشفاق ورک تو ہیں ہی اردو کے استاد۔ اس حیثیت میں اردو سے ان کی محبت ان کے اشعار میں کس قدر گندھی ہوئی ہے ان دو شعروں میں نمایاں ہے: کہیں ریشم کہیں اطلس کہیں خوشبو رکھ دوں یہ تمنا ہے تری یا د ہر سو رکھ دوں یہ تبسم یہ تکلم یہ نفاست یہ ادا جی میں آتا ہے ترا نام میں اردو رکھ دوں کتاب کی پشت پر موجود شاہین عباس کے تبصرے میں ا شفاق ورک کی شاعری کے موضوعات کی وسعت اور تنوع کا اعتراف ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔’’ اشفاق ورک کی بیشتر غزلیں اور نظمیں ان مضامین و موضوعات سے عبارت ہیں جو ہمارے سامنے کے ہیں ،مگر ان میں معانی کے وہ جہان آباد ہیں جو پرت اند ر پرت ذہن انسانی میں کھلتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ ایسے اشعار کی اطلاقی جہت کسی ایک عہد یا خطے تک محدود نہیں رہتی۔ طنز ومزاح کے میدان میں حاصل ہونے والے وقیع تجربہ کی جھلک ان کی سنجیدہ شاعری میں بھی ایسے انسانی و معاشرتی رویوں کی صورت در آئی ہے جہاں قہقہہ قہقہہ رہتا ہے نہ گریہ گریہ رہتا ہے۔ بلکہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔‘‘ غم دنیا کی انتہا ہو جا ہوتے ہوتے تو قہقہہ ہوجا اور اس قہقہہ کی تلاش میں اشفاق ورک نے ’’ مجال‘‘ کی شکل میں ایک خوش رنگ گل دستہ مرتب کر دیا ہے۔ جس کے بارے میں خود ان کا یہ خیال ہے کہ ’’ اس میں بہت سارا کچپنا ہے کسی حد تک بچپنا بھی ہے اگر اس میں تھوڑا بہت پچپنا بھی نظر آجائے تو یہی میری کامیابی ہے۔ ‘‘ یقین ہے کہ اس کی خوشبو دور تک اور دیر تک اہل ذوق و نظر کے لئے وجہ ء تحسین و تسکین رہے گی۔ اس خوشنما و خوش رنگ گل دستے سے چنیدہ چند پھولوں کی خوشبو تعارف کے طور پر ملا حظہ ہو: دال گلتی نظر نہیں آتی گیم چلتی نظر نہیں آتی چار جانب دھواں تو ہے لیکن آگ جلتی نظر نہیں آتی ان حکیموں سے طبیبوں سے موت ٹلتی نظر نہیں آتی یا پھر یہ دو شعر ملاحظہ ہوں وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا برادری کا بھی ہوتا تو صبر آجاتا شیوکر نے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے اقبال کے اس شہرہ آفاق مصرعہ کو کس خوبصورتی کے ساتھ ایک نئی معنویت کے ساتھ اور نئے رنگ میں پیش کیا ہے: اک صدی پہلے کہا تھا قوم سے اقبال نے ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے رات مجھ کو خواب میں وہ آپ ہی فرما گئے نیک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے کتاب کی خوبصورت اشاعت پر قلم فائو نڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم صاحب بھی تعریف کے مستحق ہیں جن کا ادارہ اچھی کتابوں کی عمدہ طباعت کے لئے معروف ہے۔ ٭٭٭٭