سیکرٹریٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک سڑک نئے بلاک کے سامنے سے گزرتی ہوئی سی سی پی او آفس کی طرف جاتی ہے۔ اس سڑک سے بیسیوں بار گزرا ہوں۔ عمر فاروق ایس ایس پی سکیورٹی ہیں۔ ہمارے کالج سے فارغ التحصیل۔ نعیم رسول‘ عثمان پہلوان اور رضوان کے ساتھ اسلامیہ کالج سول لائنز سے نکلے اور عمر فاروق سے ملنے کے لیے اس سڑک پر آ گئے۔ نئے سیکرٹریٹ بلاک سے چند قدم بائیں طرف ان کا دفتر ہے۔ عمارت کے آخری حصے میں گاڑی پارک کی تو برگد کا ایک قدیم درخت سامنے کھڑا تھا۔ درخت پر 1792 کا سن لکھا ہواتھا۔ اس کا گھیرا کوئی پچاس فٹ ہوگا۔ مرکزی تنے کے ساتھ برگد کی شاخوں سے لٹکتی داڑھی نے کئی نئے تنے بنا لیے تھے۔ یہ لاہور کے پرانے درختوں میں سے ایک ہے لیکن بہت پرانا نہیں کہہ سکتے۔ سب سے قدیم درخت بی بی پاک دامناں کے احاطے میں جنڈ کے ہیں۔ ان کی عمر ایک ہزار سال سے زیادہ ہے۔ معلوم نہیں محکمہ آثار قدیمہ اوقاف والوں کے ساتھ مل کر ان درختوں سے متعلق کوئی آگاہی کا سامان کیوں نہیں کرتا۔ یونورسٹیوں کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کو ان درختوں پر تحقیق کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟ باغ جناح میں جو درخت ہیں وہ سب دو سو سال سے کم عمر کے ہیں۔ مال روڈ چھائونی اور پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے درخت انگریز دور کے ہیں۔ ہم جس برگد کے درخت کی بات کر رہے ہیں وہ سکھ عہد کا ہے۔ برگد کے درخت کے عقب میں رابرٹس کلب کی عمارت ہے۔ یہ کلب پولیس کے دفتر کے اندر ہی ہے۔ میرے لیے برگد‘ رابرٹس کلب اور کچھ باقی رہ جانے والی پرانی تعمیراتی نشانیاں کافی تھیں، کسی مقام کی تاریخی حیثیت کو جاننے کے لیے۔ رابرٹس کلب پنجاب میں چیف کمشنر اور پھر گورنر رہنے والے رابرٹ منٹگمری سے منسوب ہے۔ یہ وہی رابرٹ منٹگمری ہیں جن کے نام سے منٹگمری ضلع آباد کیا گیا جو اب ساہیوال کہلاتا ہے۔ رابرٹ منٹگمری سے منسوب ایک کشادہ ہال باغ جناح میں قائم قائداعظم لائبریری کا حصہ بھی ہے۔ رابرٹ منٹگمری 1809 میں پیدا ہوئے۔ پنجاب پر انگریز کا قبضہ 1849 میں ہوا۔ اس لحاظ سے برگد والی عمارت انگریز کی آمد سے پہلے بھی خاص حیثیت کی حامل رہی ہوگی۔ رابرٹ منٹگمری 1859 سے 1865 کے درمیان پنجاب کے چیف کمشنر رہے۔ رابرٹ منٹگمری آئرلینڈ کے چھوٹے سے قصبے نیویارک میں پیدا ہوئے۔ 1826 میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سول سروس کا حصہ بنے۔ ہنری لارنس اور جان لارنس (لارنس گارڈن کے بانی) ان کے کالج کے ساتھی تھے۔ چند برسوں میں ہی رابرٹ منٹگمری چیف جج آف اپیل ان پنجاب‘ پولیس فورس سربراہ‘ روڈ سپرنٹنڈنٹ‘ کنٹرولر آف لوکل اینڈ میونسپل فنڈز اور تعلیمی امور کے نگران بن کر خدمات انجام دیتے رہے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے وقت وہ لاہور میں تعینات تھے۔ انہوں نے فوری طور پر مقامی مسلمان، سکھ اور ہندوسپاہیوں سے ہتھیار لے لیے۔ اس سے انگریز انتظامیہ خطرے سے بچ گئی۔ اس خدمت پر انہیں نائٹ ہڈ کا خطاب دیا گیا۔ کچھ عرصہ کے لیے انہیں اودھ بھیج دیا گیا۔ 1859 میں جان لارنس کے بعد رابرٹ منٹگمری کو پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر بنادیا گیا۔ یکم مارچ 1862 کو انہوں نے پنجاب ریلوے کے پہلے سیکشن لاہور‘ امرتسر کا افتتاح کیا۔ 1865 میں ان کی جگہ ان کے داماد ڈونلڈ فرائیل میکلوڈ کو گورنر تعینات کیا گیا۔لاہورکا میکلوڈ روڈ ان ہی صاحب کے نام پر ہے۔ سپیشل برانچ پولس کا یہ دفتر انگریز دور میں ’’ٹھگی ڈیپارٹمنٹ‘‘ کہلاتا تھا۔ لاہور پر تحقیق کرنے والے مجید شیخ کا کہنا ہے کہ انگریز نے جب پنجاب پر قبضہ کیا تو اسے امن و امان کے حوالے سے ٹھگوں نے بہت پریشان کیا۔ 1852 میں ایچ بریرٹن کوسپرنٹنڈنٹ ٹھگی انویسٹی گیشن پنجاب مقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں دوسرا بڑا جرم ’’کُڑی مار‘‘ تھا۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے۔ یہ جرم زیادہ تر لاہور کے جنوب مغرب میں آباد بیدی قبیلہ اوراندرون لاہور کے ہندو و مسلمان کھتریوں کے ہاں پایا جاتا تھا۔ اس جرم کی وجہ جائیداد کی تقسیم اور شادی پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے بچنا تھا۔ کئی بار یہ بھی مقصد ہوتا کہ بیٹی کے سسرال کے سامنے جھکنا نہ پڑے۔ رابرٹس کلب میں ’’انسداد ٹھگی‘‘ اور انسداد کڑی مار مہم کی نگرانی اور کارروائیوں کے لیے دو الگ سکواڈ قائم کئے گئے۔ یہ کارروائیاں خفیہ معلومات کے ذریعے کی جاتیں اس لیے پولیس کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کو منظم کیا گیا۔ جلد ہی رابرٹس کلب والی عمارت خفیہ پولیس کا مرکز بن گئی۔ ایک سال کے اندر اندر پولیس اس قابل ہو گئی کہ ہر پٹواری اور چوکیدار کوپابند کردیا گیا کہ وہ ماں باپ بننے کے قریب جوڑوں کی بابت مقامی پولیس کو آگاہ کریں۔ ان جوڑوں پر نظر رکھی جاتی۔ لڑکی پیدا ہوتی تو پولیس اہلکار پیدائش والے گھر جا کر والدین کو انتباہ کرتا۔ اس زمانے کا ایک واقعہ مجید شیخ یوں بتاتے ہیں کہ لاہوری دروازے کے اندر رہنے والے بیدی قبیلے کے ایک شخص رام داس نے تیسری بیٹی پیدا ہونے پر اس کا منہ گائے کے گوبر سے بھر دیا۔ بچی کو ایک بڑے مٹکے میں بند کیا۔ کچھ گوبر اپنے سر پر تھوپا اور گھڑے کو دریا راوی میں پھینک دیا۔ پولیس نے گرفتار کیا۔ اسے لاہوری دروازے کے پاس سرعام پھانسی دی گئی اور اس کی جائیداد ضبط کر لی گئی۔ اس واقعہ پر کھتری برادری نے کچھ احتجاج کیا لیکن اس جیسے جرائم پر وزیر آباد‘ گجرات اور دیگر شہروں میں تیز رفتار سماعت اور سزائوں کے نتیجہ میں یہ جرم دم توڑ گیا۔ لاہور کے نواح میں شیخوپورہ ٹھگوں کا علاقہ کہلاتا تھا۔ یہ ٹھگ اس قدر منظم اور طاقتور تھے کہ سکھ دور میں امرا ذاتی محافظوں کے ساتھ بھی شیخوپورہ سے کترا کر گزرتے۔ ٹھگوں کی لوٹ مار کا سیزن دوسہرا کا تہوار ہوتا جب سکھ فوجی تہوار میں شرکت کے لیے ملتان اور پشاور سے اپنے گھروں کو آتے۔ یہ ٹھگ دیوی کی پرستش کرتے۔ یہ سرور سلطان کو مانتے اور اسے چوروں اور بدمعاشوں کا پیر کہتے۔ وہ اس کے نام پر چڑھاوا چڑھاتے کہ قسمت مہربان رہے۔ رابرٹ منٹگمری اور اس کی خفیہ پولیس کی مستعدی سے 1858 کے پورے سال ایک بھی ٹھگی کا واقعہ نہ ہو سکا۔ ٹھگی آفس کو قبل ازیں 1853 میں معمول کی کرائم برانچ میں مدغم کردیا گیا۔(جاری ہے)