امید کی جا رہی تھی کہ الیکشن کے بعد حالات بہتری کی طرف بڑھیں گے، سیاسی بحران میں کمی آئے گی اور ذہنی اذیت کا شکار پاکستانی قوم کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا مگر الیکشن نے سیاسی تنازعات ختم کرنے کی بجائے نئے تنازعات اور نئے جھگڑے کھڑے کر دیئے ہیں۔ جہاں نا انصافی ہو گی وہاں امن نہیں ہو گا کہ بے انصافی جھگڑے کی ماں کہلاتی ہے۔ ایک طرف نواز، شہباز ملاقات میں وفاقی کابینہ کے ناموں پر غور ہو رہا ہے اور پنجاب میں بیورو کریسی نے مسلم لیگ کی جانب سے نامزد وزیرا علیٰ مریم نواز کو رپورٹ کرنا شروع کر دی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے مریم نواز سے ملاقات کرکے ہدایات حاصل کی ہیں، دوسری طرف خیبرپختونخوا کے نامزد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے ہیں اور ہدایت کی گئی ہے کہ 28 فروری کو الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کے روبرو پیش ہوں۔ اس سے ایک جماعت کے ساتھ حسن سلوک اور دوسری کے ساتھ امتیازی سلوک کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کے مصداق انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اشتہاری ملزمان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں قرق کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے علی امین گنڈا پور کی تین زرعی زمینیں، ایک رہائشی جائیداد، پانچ بینک اکائونٹ، دو گاڑیاں اور 35 گھوڑے بھی قرق کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ساری صورتحال بحران بڑھنے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ بحران کو بڑھاوا دینے کے وہ خود بھی ذمہ دار ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے اور کپتان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کو جیلوں میں ڈلوا کر وہ خود پی ڈی ایم کا حصہ بنے اور وزارتیں انجوائے کیں۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی ناراضگی صدارتی منصب یا دیگر مراعات کے حوالے سے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں کہ قوم پرستوں کو پارلیمنٹ سے باہر رکھ کر وفاق کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں ، ڈاکٹر عبدالمالک کو سرکاری و غیر سرکاری قوم پرستوں کا فرق سمجھنا چاہئے، ایم کیو ایم مہاجر قوم پرست، پیپلز پارٹی سندھ، سندھی قوم پرست، (ن) لیگ پنجابی قوم پرست اور تحریک انصاف کے پشتون قوم پرستوں کو کامیاب کرایا گیا ہے اور ان کے درمیان اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی صدر، سپیکر، چیئرمین سینٹ اور چند ایک مزید آئینی عہدے مانگ لیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ (ن) لیگ نے حامی بھر لی ہے۔ (ن) لیگ کو اقتدار حاصل کرنے کی جلدی ہے۔(ن) لیگ سمجھتی ہے کہ اُسے اس کی سوچ سے زیادہ مل رہا ہے کہ تین صوبوں کا اقتدار ایک طرف اکیلے پنجاب کا اقتدار اُس پر بھاری ہے۔ مزید وزارت عظمیٰ کے ذریعے وفاق میں پورے ملک کا اقتدار بھی اُسے حاصل ہو ر ہا ہے۔ ذاتی اور وقتی فوائد ایک طرف مگر یہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہے، اسی اقتدار کی وجہ سے اُن کی عوامی مقبولیت کا گراف بہت نیچے چلا گیا ۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی نفرت یا ناراضگی کی وجہ سے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ تحریک انصاف برسراقتدار آئی ایک سال، دو سال لوگوں نے ریلیف کا انتظار کیا لیکن عام آدمی کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملی۔ لوگ آہستہ آہستہ عمران خان اور تحریک انصاف سے مایوس ہو رہے تھے، سیاسی لحاظ سے عمران خان کی خوش قسمتی تھی کہ اُن کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پھر پی ڈی ایم کی صورت میں پرانے چہرے دوبارہ برسراقتدار آئے تو عمران خان کو ایک بار پھر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہو گئیں اور آج وہ مقبول لیڈر ہیں۔ پی ڈی ایم والے اقتدار کے نشے میں مست رہے، عام آدمی کو کوئی ریلیف نہ دیا، وہ صرف اس خوشی میں تھے کہ اسٹبشلمنٹ اُن کے ساتھ ہے اور اُس نے ہی سب کچھ کرنا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ اسٹیبشلمنٹ نے عمران مخالف قوتوں کا ساتھ دیا اور اب بھی دے رہی ہے مگر کب تک؟ (ن) لیگ فاش غلطی کر رہی ہے اگر ان میں سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ اس موقع پر قطعی طور پر اقتدار حاصل نہ کرتے اور اعلان کر دیتے کہ زیادتیوں کے باوجود بے نشان تحریک انصاف کو کامیابی کا نشان حاصل ہوا ہے لہٰذا اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔ تحریک انصاف پہلے کی طرح ناکامی سے دو چار ہوتی تو آئندہ الیکشن میں لوگوں نے اُسے مسترد کر دینا تھا۔ اب جس طرح اسے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے گویا اسے سیاسی لحاظ سے مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ اُس کی ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں، اُس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح آئینی عہدے مانگے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ جان چھڑا رہی ہے کہ وہ مسائل کا ملبہ (ن) لیگ پر ڈالنا چاہتی ہے اور آئینی عہدوں کا ہتھیار اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ کیا یہ بات (ن) لیگ والوں کو سمجھ آئے گی؟ (ن) لیگ میں ہوس اقتدار اتنی زیادہ ہے کہ اُسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وزیرا عظم کا عہدہ بھی آپ اپنے گھر میں رکھ رہے ہیں اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی اپنے ہی گھر میں رکھ رہے ہیں۔ جہاں بادشاہت ہو وہاں تو ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں مگر جمہوریت میں اپنی ٹیم اور اپنی جماعت کے لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے۔ تیسری دھاندلی یہ دیکھئے کہ نوازشریف، شہباز شریف کی ملاقات میں وفاقی کابینہ کے جن ناموں پر غور ہوا ہے اُن میں اسحاق ڈار، ایاز صادق خواجہ آصف، احسن اقبال، مریم اورنگزیب، عطاء تارڑ وغیرہ شامل ہیں۔ جب آپ صرف لاہور یا پنجاب کے چند اضلاع کو ہی پاکستان سمجھیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ ’’تو بھی پاکستان ہے، میں بھی پاکستان ہوں‘‘ ’’یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے‘‘ والی سوچ جب تک پیدا نہیں ہو گی، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ملک و قوم کی بہتری کیلئے لازم ہے کہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے، قومی معاملات کے بارے میں سوچا جائے، عام آدمی کے مسائل حل کئے جائیں اور آئین سازی کی طرف توجہ دی جائے۔