نقوش کے لاہور نمبر، کنہیا لال کی تاریخ لاہور اور معروف مورخ اقبال قیصر کے مطابق پرانی انارکلی کے علاقے میں سکھ عہد کے دوران سپاہیوں کے لئے بیرکیں تعمیر کی گئیں۔پنجابی فوج کے فرانسیسی افسروں کی رہائش گاہیں ان بیرکوں کے ساتھ ہی تعمیر کی گئیں۔اس چھاونی میں پیپل اور برگد کے پیڑ لگائے گئے۔انگریز دور میں چھ سال اسی جگہ چھاونی رہی ۔اس دوران بڑی تعداد میں سپاہی معدے کے امراض کا شکار ہو کر مرنے لگے۔حکام نے بہت جتن کئے جب مرض کا انسداد نہ ہو سکا تو چھاونی دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔کئی لوگوں کا ماننا تھا کہ اس علاقے میں جنگوں میں قتل ہونے والوں کی روحیں انگریز فوج کو مار رہی ہیں۔ کچھ لوگوں نے چاونی کے ارد گرد گنجان ہوتی آبادی کو سپاہیوں کی صحت کے لئے مضر قرار دیا۔ چھاونی کو میاں میر منتقل کیا گیا تو یہ علاقہ سول افسروں ، پولیس اور دیگر محکموں کے دفاتر بنا نے کے کام آیا۔انگریز حکام چھاونی سے اسلحہ،چارپائیاں،فرنیچر ،اوزار اور گاڑیاں میاں میر لے گئے ،پیچھے ویران بنگلے اور بیرکیں رہ گئیں جن کے کشادہ احاطوں میں برگد اور دوسرے مقامی درخت لگے تھے۔روبرٹس کلب میں ایستادہ گھنا برگد ان پیڑوں میں سے باقی رہ گیا۔دوسرے پیڑ پاکستان بننے کے بعد آنے والے مہاجرین نے ایندھن کے لئے کاٹ ڈالے یا پھر لوگوں نے کٹائی کرکے مکان تعمیر کر لئے۔یہ سوال تلاش کرنے کی کوشش میں نے کی ہے کہ ان دیہات کا کیا ہوا جو انارکلی کے نواحی اس علاقے میں مغل عہد میں موجود تھے اور سکھ غارت گروں نے جنہیں اجاڑ دیا۔ ایک ایسے ہی گاوں کی جگہ پر گورنمنٹ کالج تعمیر ہوا۔ سپیشل برانچ کے ایس ایس پی عمر سلامت سے ملاقات میں تاریخی مقامات اور ان کے دفتر میں موجود دو سو تیس سال پرانے برگد کا ذکر رہا۔یہ برگد سکھ غارت گروں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد کا گواہ ہے،یہ انگریز دور کی کہانی ہے اور پاکستان کی چھہتر سال کی تاریخ اس کے سامنے ہے۔ برگد ہندوستان کے سماج میں کئی حوالوں سے اہم رہا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ کرشن نے برگد کے درخت کے نیچے بھگوت گیتا گائی ۔گھنے ، تناور برگد کی شخصیت پر اسرار اوربھید بھری رہی ہے۔قدیم پنجاب میں کئی عقائد متھالوجی کی شکل میں رہے ہیں، ہندو اور بدھ اثرات کے باعث درخت ان عقائد میں دیوتا کی صورت میں ابھرتے ہیں۔برگد اور پیپل دیوتا ہیں۔ برگد کے متعلق بہت سی کہانیاں ہیں۔یہ جادوئی خصوصیات رکھتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ درخت ایک جوڑے کو بچہ دے سکتا ہے، جذام کا علاج کر سکتا ہے اور برے شگون کو دور کر سکتا ہے۔سیانے کہتے ہیں جس کی نرینہ اولاد نہ ہو وہ پیپل یا برگد کا پیڑ لگا دے ۔یہ پیڑ اس کا نام صدیوں تک زندہ رکھیں گے۔اتھرو وید کے مطابق برگد کا درخت روحوں کا ٹھکانہ ہے۔ دیگر قدیم روایات سے پتہ چلتا ہے کہ برگد پر اچھی فطرت کی روحیں رہتی ہیں۔ اگربرگد کا پیڑ یا اس کی شاخیں کاٹی جائیں تو پرانے لوگ سمجھتے کہ اس پر رہنے والی روحیں کاٹنے والے کے گھر بسیرا کر لیتی ہیں ۔ برگد کو کیوں نہیں کاٹا جانا چاہیے اس کے بارے میں کئی اور افسانے ہیں تاہم یہ ان روایات کا اثر ہے کہ کئی قدیم درخت آج بھی دیہی پنجاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔میں نے منڈی فیض آباد شیخوپورہ کے پاس راوی کنارے واقع ایک گاوں بھچوکے میں چند سال قبل آٹھ سو سال پرانا برگد دیکھا تھا۔ سرگودھا کے پاس مڈھ رانجھا کے علاقے میں پاکستان کا قدیم ترین برگد کا پیڑ ہے ۔دنیا میں سب سے پرانا برگد سری لنکا میں ہے ۔برگد یا اسی خاندان کے پیپل کے درخت سے وابستہ روایت ہے کہ سدھارتھ اپنی سلطنت چھوڑ کر نکل گیا اور سچ کی تلاش میں پھرتا رہا۔ آخر اسے نروان یا سچائی برگد کے نیچے ملی جہاں سدھارتھ گوتم بدھ بن گئے۔ انہوں نے درخت کو نیا نام دیا ، بودھ، روشن خیالی کا درخت، اسی نام سے مہاتما بودھ مشہور ہیں۔قدیم روایات بتاتی ہیں کہ مہاتما بودھ گہرے مراقبہ میں تھے جب شیطان دیوپوتر مارا ان کا دھیان بٹانے کے لیے آیا، تب بوڑھیا برگد درخت کی محافظ روح مہاتما بودھ کی حفاظت کے لیے اتری۔ ڈاکٹر اعجاز انور نے کسی جگہ بتایاتھا کہ ایمپریس روڈ پر بوڑھ والا چوک پر برگد کے چھ بڑے درخت تھے۔ اورنج لائن منصوبے کے لیے راستہ بنانے کے لیے ان سب کو کاٹ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول انہیںاس جگہ کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ ان کا گھر قریب ہی تھا۔وہ کہتے ہیں ان پیڑوںکی یادیں آج بھی ذہن میں زندہ ہیں ۔ کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ زندہ ہیں اور کوئی بے جان چیز نہیں تھے۔سات آٹھ سال پہلے ڈاکٹر صاحب نے رائے ونڈ روڈ کے پاس مکان بنایا تو کارٹونسٹ جاوید اقبال کے ہاں ملاقات میں بتایا تھا کہ انہوں نے برگد کے کچھ پیڑ نئے مکان میں لگائے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی روایت کے مطابق شالامار باغ 1641 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ باغ کے سامنے برگد کے دو بڑے درخت تھے، جنہیں اورنج لائن منصوبے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ۔ یہ درخت شالا مارباغ سے زیادہ پرانے تھے ، 367 سال سے زیادہ پرانے ۔ وہ ہمارے ورثے کا حصہ تھے جو تباہ ہو چکے ہیں۔ شہر میں بہت سے درخت کاٹے گئے ہیں کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ گھنے درختوں نے ان کی دکانوں اور تجارتی مقامات کو چھپا رکھا ہے۔رابرٹس کلب کے سامنے والا برگد کسی کاروبار میں رکاوٹ نہیں،یہاں مالی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔میں نے اس کے ساتھ تصویر بنائی ۔ہم سب اس تختی کو غور سے دیکھ رہے تھے جس پر 1792 کی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ لاہور چڑیا گھر میں برگد کا چار صدی پرانا درخت ہے۔ نباتاتی ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ اسے 400 سال پہلے لگایا گیا تھا۔شاید جب رائے بہادر میلہ رام نے یہ زرعی اراضی چڑیا گھر کو عطیہ کی تو اس وقت یہاں اور بھی برگد موجود تھے۔نعیم رسول ، حماد غزنوی، عثمان پہلوان اور رضوان کو امید ہے کہ میں برگد اور روبرٹس کلب کی تاریخ ڈھونڈ نکالوں گا،تاریخ تو مل گئی لیکن ساتھ ایک احساس زیاں بھی گھیر چکا ہے،بڑھتی آبادی اور زمین کی طمع ہمارے صدیوں پرانے ورثے کو چاٹ رہی ہے ۔