ہر کسی کا کوئی ایک دن ہوتا ہے، اوریہ 92 نیوز کادن تھا۔یقینا کچھ اعزاز کچھ خاص شخصیات یا اداروں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں، دوسرا کوئی ا ن میں شریک نہیں ہو سکتا۔اس لیے کہ ہر ایک کی بنا میں کچھ خاص ہوتا ہے ،اور92نیوز کی بنا میں ایک اضافی اور وافر چیز دین سے الفت ہے۔ محبت کیلئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا بات سمجھنے کے لیے مثلاً اس وقت کو یاد کیجئے، جب رسول رحمتﷺ مدینہ میں جلوہ افروز ہوتے تھے، اور آنکھیں دنیا کے سب سے حسین منظر سے شادہوا کرتی تھیں، کیا منظر تھا اور کیا دیکھنے والے۔غالباً ’حیات صحابہ کے درخشان پہلو‘ میں پڑھا، جب رسول رحمت ﷺاس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس کے بعد ایک صحابی کی بینائی جاتی رہی۔ دوست جب عیادت و تعزیت کو پہنچے تواس نے بس یہ کہا؛اچھا ہی ہوا کہ آنکھیں نہ رہیں، اب بھلا ان آنکھوں کے دیکھنے کو بھی کیا رہ گیا تھا، جب رسول ﷺکے چہرہ اقدس کا دیدا ر نہ رہا تو پھر کسے پروا، آنکھیں بھی رہیں یا نہ رہیں۔سیدنا حسن ؓ سے طلاق ہو جانے پر خاتون نے حق مہر لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ جب آپ کے وجود کی دولت میسر نہ رہی تو اس مادی دولت کی بھی مجھے کوئی چاہ نہیں۔ بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اڑا دئیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے یہ اسی بابرکت دور کا قصہ ہے، جب فداہ امی و ابی رسول رحمت ﷺنے دین حق کی معاونت کے لیے اعلان فرمایاتو پروانے یوں متاع لٹانے لگے ، جیسے شمع پر پروانہ اپنا تن من قربان کرتا ہے۔ اس دن سیدنا عمرؓکے دل میں خیال آیا، کیا لازم ہے کہ ہمیشہ ابوبکرؓ ہی آگے بڑھیں، کیوں نہ اک ذرا ہمت کرکے آج کا دن اپنے نام کر لیا جائے۔ کیا لازم ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب آئو نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی اسی جذبہ سبقت کے ساتھ سیدنا عمر فاروق ؓ دربارِ رسالت میں چمکتے چہرے کے ساتھ حاضر ہوگئے۔کہانی کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیدنا عمرؓ گھرکا آدھا سازوسامان پیش کر رہے تھے اور سیدنا ابو بکر اپنی کل متاع! تب سیدنا عمر ؓ نے یہ جانا کہ ابو بکر کے ہوتے ہوئے کسی اور کا دن طلوع ہوجانا ممکن نہیںکہ قوموں کا ابو بکر ایک ہی ہوتا ہے۔ قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی زمانے میں فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص اور پھر ابو بکر صدیقؓ؟ پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے ، خدا کا رسول بس ہر فرد کا ایک مقام ہوتاہے ، ہر شخص کا ایک ذوق ہے اور ہر ادارے کی ایک پہچان ۔ نائنٹی ٹو نیوزنے گھپ اندھیرے میں اپنی طرز کا اک چراغ جلایا ہے۔ مختلف موقعوں پر جس کی منفرد روشنی سے معاشرہ منور ہوتا رہتا ہے۔ اب کے نائنٹی ٹو نے جس معاملے میں آوازہ حق بلند کیا ، وہ مسجد وزیر خاں میں در آتے رقص کناں قدم تھے۔ کچھ شک نہیں کہ سماج مختلف فکر و نظر اور رنگ و روپ سے مل کر تشکیل پاتاہے، سماج کا کھیس بننے کے لیے سارے دھاگے سیدھے ہی نہیں ہوتے ،کچھ آڑے اور ترچھے بھی ہوتے ہیں۔ مگر ہر ایک کا ایک مقام ہوتاہے۔جوتا جتنا بھی مہنگا ہو،یہ کبھی آپ سر پر نہیں پہنتے۔ ٹوپی جتنے بھی کم قیمت کپڑے کی ہو، یہ کبھی پائوں میں نہیں پہنی جاتی۔یہاں مگر سب فرق بھلا کر ناچتے قدم اور تھرکتے جسم محراب تک جا پہنچے تھے۔اس کی خبر لی گئی اور پھراس پر رد عمل آیا۔جو بہرحال آنا ہی تھا۔یہ معاشرہ جتنا بھی بے عمل ہو جائے کچھ چیزیں بہرحال اس کے رگ و ریشے میں بسی ہیں۔ مثلاً محبت ِ مصطفی ، مثلاً شعائراللہ کی تعظیم ، مثلاً دینی اقدار کا تحفظ۔ اداکار بلال سعید نے اس پر بعد میں معافی مانگی، کہنا ان کا یہ تھاکہ نادانستگی میں یہ ہوا۔ نادانستگی؟ یہ کوئی روزہ تھاکہ بھول کے پانی پی بیٹھے؟ یہ تو بچپن سے ہمارے شعور میں بسی آتی چیزیں ہیں۔آخر کس طرح لکھنے والے نے مسجد میں رقص کا سکرپٹ لکھا، ڈائریکٹر نے اسے ڈائریکٹ کیا اور پھر پرفارمر اسے پرفارم کرنے آپہنچے۔ یقینا محکمہ اوقاف بھی زیادہ ذمے دار ہے۔ اس نے اگر کچھ شرائط طے کر رکھی ہیں تو اسے ممکن بنانا بھی اسی کی ذمے داری ہے۔ یہ اگر بھول بھی تھی تو خطرناک بھول۔ بہرحال بلال سعید نے اس پر معافی مانگ لی۔اب ان کا معاملہ خدا کے سپرد۔ البتہ محکمہ اوقاف اور حکومت اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ لازم ہے کہ وہ مساجد جیسے مقدس مقامات کی بے حرمتی کا ہر دروازہ بند کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سی تاریخی نوعیت کی مساجد کے ساتھ ہمارا سلوک مؤدبانہ نہیں بلکہ باغیانہ ہے۔ مسجد کوئی معمولی خطہ زمین نہیں ہوتا، یہ زمین پر خدا کے پسندیدہ ترین مقامات ہیں۔ سلطانِ مدینہﷺ کے فرمان کے مطابق زمیں پر خدا کی پسندیدہ ترین جگہیں مساجد اور ناپسندیدہ ترین جگہیں بازار ہیں۔ مسجد سے محض گزرنا بھی جائز نہیں ، مسجد میں ایسے ہی جا کے بیٹھا بھی نہیں جا سکتا۔ دو رکعت پڑھ کے بیٹھنا مسجد کا حق ہے۔ عام بات ہے کہ جوچیز کسی کے لیے خاص ہو جائے، اس کے آداب زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔ چند ایکڑ زمین لینے والا، اس طرف جانے والی راہ پر دس فٹ کا بورڈ لگا دیتا ہے کہ یہ شاہراہ عام نہیں۔ تو بہرحال خدا کے گھر کا اپنا ایک تقدس ہے، ضروری نہیں کہ اگر لہو ولعب کا کوئی کام ہمارے ہاںہو رہا ہے تو اب اسے مسجد کے صحن اور محراب میں منعقد کرکے خدا کے عذاب کو دعوت دینا بھی لازم ہے؟اس بات کا عقل سے کوئی تعلق نہیں کہ مساجد میں رہنے والوں سے بھی جرم اور غلطیاں ہو جاتی ہیںتو یہاں ہرباقاعدہ جرم کی اجازت دے دی جائے؟ انسان جہاں بھی ہو اس سے غلطیاں ہوں گی،ایک جرم مگر دوسرے جرم کا جواز نہیں بن سکتا۔