فروری نئے موسموں کی نوید لے کے آتا ہے۔سخت یخ بستہ دنوں کے بعد فروری کی دھوپ سنہری اور حرارت بخش ہوتی ہے اور اس کی بہار آفرین بارشیں حسن اور حیرت سے بھری ہوتی ہیں۔اس مہینے میں کوئی خاص بات ہے جو دل میں دھمال ڈالتی ہے۔کچھ ایسا حسن ہے اس مہینے کے اندر جو محسوس ہوتا ہے مگر کھلتا نہیں ہے۔ مبارک سلامت کہ فروری کے خوبصورت دن ہمارے آنگنوں میں مہک رہے ہیں اور ہزار مشکلات کے باوجود ہم پر امید دل کے ساتھ آنے والے دنوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے جس میں خاص لوگ چنے جائینگے۔الیکشن صرف چند دن کی دوری پر آٹھ فروری کو ہونے جا رہے ہیں۔ مشرف کے 10 سال کے مارشل لا کے بعد 2008کے انتخابات بھی فروری کے رومان پرور مہینے میں منعقد ہوئے تھے۔اس وقت تاریخ 8 نہیں 18فروری تھی۔ان نتخابات سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا المناک سانحہ ہوا تھا جس نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو درہم برہم کر دیا تھا۔ اس سے پہلے وکلا تحریک اور تین نومبر کی مشرف ایمرجنسی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین واقعات تھے۔ دس سال کے جبر کے بعد الیکشن ہونے جا رہے تھے تو لوگ خوش تھے۔میری الیکشن ڈیوٹی فیصل ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن کے پولنگ بوتھ پر تھی میں نے اپنے گھر کے قریب فیصل ٹاؤن سے آغاز کیا۔گھر سے نکلی تو موسم بہت اچھا تھا ایسے جیسے اس موسم میں کسی محبت کی مہک ہوتی ہے۔ جیسے آنے والے خوبصورت دنوں کی چاپ تھی سچی بات ہے اپنے پاکستانیوں کو حالات سے پر امید اور خوش دیکھ کر مجھے بھی ایک طمانیت کا احساس ہوا۔لوگ اس بات پر خوش تھے کہ پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں اور وہ ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔اس کے بعد خواب اور عذاب کی کہانی ہم سب کے سامنے ہے 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔پھر 2013 میں ن لیگ نے حکومت بنائی۔پھر 2018 میں عمران خان برسر اقتدار آئے۔بہرحال گھسٹ گھسٹ کر ہی سہی کچھ نہ کچھ سسٹم چلتا رہا اور اب ہم جس جگہ پر پہنچے ہیں ہماری سیاسی تاریخ بے شمار اتار چڑھاؤ سے بھری ہوئی ہے۔بہت سے گھاؤ پاکستان کے سیاست اور معاشرت کے بدن پر لگے ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا پر آزادانہ رائے کے اظہار سے عام آدمی تک بھی وہ باتیں پہنچ چکی ہیں جو شاید اس سے پہلے نہیں پہنچتی تھیں۔ وہ بھی جان چکا ہے کہ پاکستان میں جمہوری پروسیس کہیں نہ کہیں سے کنٹرول ہوتا ہے۔اس انتخابات میں پی ٹی آئی چیئرمین جیل میں ہیں دو مقدمات میں ان کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ الیکشن کے لیے ان کی پارٹی کو انتخابی نشان بھی نہیں ملا۔ یہ ایشو روز ٹی وی سکرینوں پر اور اخباروں میں ڈسکس ہوتی ہیں اور سبھی لوگ اس کے پس منظر کو جانتے ہیں کہنے والی بات یہ ہے کہ یہ سیاست اور طاقت کا راستہ انہی چیزوں سے عبارت ہے۔ پاکستان کی کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس کے لیڈران کیسوں،سزاوں اور جیل کی ان گھاٹیوں سے نہیں گزرے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنے تمام تردعووں ،تقریروں اور اونچی اونچی بھٹکوں کے باوجود عام انسان ہوتے ہیں ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ان پر کمزور لمحے گزرتے ہیں انہیں طاقت لالچ روپیہ پیسہ مفاد سب عزیز ہوتا ہے اسی لیے پاکستان اس نہج پر ہے۔ اس لیے پاکستانیوں کو اس چیز کو ذہن میں بٹھا لینا چاہیے کہ جس بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی ہے اس کے سربراہ کو براہ مہربانی انسان ہی سمجھیں۔اسے خدا بنا کر خود اپنی کریڈیبلٹی کو داؤ پر نہ لگائیں۔ اگر ایک سیاسی جماعت پر یہ وقت آیا ہے تو باقی سیاسی جماعتیں بھی اس سے گزری ہیں۔اپنے غلط فیصلوں پر غور کرنا اور اس وقت کو تحمل اور تہذیب سے گزارنا ہی اصل امتحان ہے۔طاقت اور حکومت کے راستے میں اگر انہوں نے قانون توڑے ہیں اصولوں پر سمجھوتہ کیا ہے ایسے کام کیے ہیں جو لا قانونیت کی زد میں آتے ہیں اس کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی۔سیاسی لیڈر کوئی خدا نہیں ہے جس سے غلطی سرزد نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ جمہوریت ہمارے پاکستان کے اندر کنٹرولڈ ہی ہوتی ہے۔اس بات کو بھی تسلیم کرلیں کہ فوج کا سیاست کے اندر کردار موجود ہے۔ تین جمہوری حکومتیں گزر جانے کے بعد ایک دفعہ پھر فروری ہی میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور یہ وہ الیکشن ہیں جن کے بارے میں ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ کیا واقعی ہونے جا رہے ہیں۔ میں نے 2007 میں کالم لکھنا شروع کیا تھا تو اس وقت وکلا کی تحریک اپنے عروج پر تھی اور مجھ جیسے جذباتی اسے انقلاب سے تعبیر کرتے اور ڈبلیو بی ییٹس کی لائنیں کالموں میں کوٹ کرتے تھے۔ terrible beauty is born..born every where.. اس وقت زندگی خواب اور اس کے مضافات میں گزرتی تھی سو خواب اور انقلاب پر یقین رکھتے تھے۔ اس وقت میں نے چسٹس افتخار کے حوالے سے جو لکھا اور وکلا کی تحریک کو جس نظر سے دیکھا کبھی اپنے پرانے کالم پڑھوں تو مجھے اس پہ کبھی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کہ ہم نے حالات کا تجزیہ کس جذباتی نظر سے کیا ۔ بس یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید زندگی یہی ہے کہ انسان فریب نظر کا شکار ہو پھر زندگی اس پہ بیتے تو حقیقت اس آشکار ہو۔ تو اس اعتراف میں کیا قباحت کہ سیاستدانوں کے وعدے اور نعرے اور الیکشن مہم کی تقریروں میں ہونے والے دعوے کبھی ہمارے دل کی سر زمین پر بھی خوش فہمیوں کی فصل اگاتے تھے۔ اگرچہ زمانہ جاہلیت کا دور بیت چکا ہے مگر امکان اور امید اب بھی سلامت ہے۔ پیارے پاکستانیوں اپنا ووٹ ضرور ڈالنے جائیں کہ اس سے کسی حد تک طاقت کے اس کھیل میں شراکت کا احساس ہوتا ہے جو حقیقت میں ایک فریب ہی سہی مگر لولے لنگڑے جمہوری عمل کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے زندگی گزارنے کے لیے امید کا سہارا جو بعض دفعہ فریب ہی ثابت ہوتا ہے۔ ہائے یہ شعر بھی کس جگہ یاد آیا کسی کا کون ہوا یوں تو عمر بھر پھر بھی یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی ٭٭٭٭