سکول میں داخل ہوا تو سب سے پہلا دوست اشرف کھوکھر بنا۔اشرف کا پورا نام اشرف مسیح کھوکھر تھا۔ وہ اب بھی میرا دوست ہے۔ہم میٹرک تک ایک ہی سکول میں رہے۔ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے۔ایک ساتھ کھاتے‘ پیتے ۔ایک مہربان خاتون یاد ہیں۔بھائی جان اور مجھے بلا معاوضہ پڑھایا کرتیں۔وہ اکثر کہا کرتیں کہ تم ضرور کچھ بنو گے۔ ہم انہیں باجی کے نام سے جانتے۔وہ مسیحی تھیں اور جنرل ہسپتال کے عقب میں کسی مسیحی سکول میں ٹیچر تھیں۔اس سے پہلے گورنمنٹ فزیکل ایجوکیشن کالج گلبرگ میں ہمارے کوارٹر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان تھا۔میدان کے پار درجہ چہارم کے کئی ملازموں کی رہائش گاہیں تھیں۔ان میں بہت سے مسیحی تھے۔کرکٹ کی ٹیم بنتی تو ہم دو تین ہی مسلمان ہوتے بس۔ ان دوستوں میں سے 70فیصد باکسنگ‘ اتھلیٹکس اور خاص طور پر دوڑ میں پاکستان کے قومی کھلاڑی بنے۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے زندگی کے ابتدائی دور میں میرے اندر بین المذاہب روا داری و ہم آہنگی کے احساسات بیدار کئے۔ ان سب سے دوستی اور میل ملاپ کے باوجود میں پورا مسلمان اور وہ پورے مسیحی تھے۔ غالباً 2016ء کی بات ہے میرے ایک ملنے والے پادری اعجاز صاحب نے فون کیا۔اعجاز صاحب فکر مند تھے۔ بتا رہے تھے کہ شیخوپورہ کے علاقے فاروق آباد میں ایک مسیحی خاندان کو کچھ مقامی مسلمانوں نے باندھ لیا ہے۔ایک مولوی صاحب لوگوں کو اکسا رہے ہیں کہ مسیحیوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔لوگ انہیں مارنے کو تیار تھے۔واقعہ یہ تھا کہ کسی تعلیمی ادارے میں تقریبات کے لئے ایک فلیکس بینر تیار کیا گیا۔اس فلیکس پر علم حاصل کرنے کے متعلق ایک آدھ آیت درج تھی۔ادارے کا مسیحی ملازم بوسیدہ ہو چکی یہ فلیکس گھر لے آیا۔ اسے لگا کہ کمرے کے کچے فرش پر فلیکس قالین کا کام دے سکتی ہے۔وہ ناخواندہ تھا اس لئے پڑھ نہ سکا کہ اس پر کیا لکھا ہے۔اس کی بدقسمتی یہی تھی۔کسی ہمسائے نے آیت والی فلیکس بچھی دیکھی اور مولوی صاحب کو اطلاع کر دی۔ پادری اعجاز چاہتے تھے کہ میں غریب مسیحی خاندان کی جان بچانے کے لئے اپنا صحافتی اثرورسوخ استعمال کروں۔ میں نے فاروق آباد میں اپنے اخبار کے نمائندے کو فون کر کے پورا واقعہ سنا اور پھر اسے فوری طور پر پولیس سے رابطہ کا کہا سہیل ظفر چٹھہ تب ایس پی تھے۔وہ فوری طور پر موقع پر پہنچے۔ بندھے ہوئے خاندان کو آزاد کرایا۔لوگوں کو ٹھنڈا کیا اور اشتعال پھیلانے والے افراد پر سختی کی۔اس واقعہ کے سب کردار اب تک دعائیں دیتے ہیں۔ سویڈن میں دو بدبخت پچھلے چند ہفتوں میں چار بار قرآن پاک کو جلا چکے ہیں۔تمام عرب و عجم کے مسلمان ممالک ان واقعات کی مذمت کر رہے ہیں۔خود سویڈن کے وزیر خارجہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان واقعات نے ان کے ملک کی سکیورٹی کے لئے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ ان واقعات پر پاکستان میں لوگوں کا ردعمل فطری طور پر شدید ہے۔ سویڈن کی حکومت کے اظہار افسوس کے باوجود مقامی عدالتیں بدبختوں کو تحفظ دے رہی ہیں۔سویڈن کے نظام میں یہ تضاد مسلم دنیا کے لئے ناقابل قبول ہے۔ سویڈن کی شناخت ایک مسیحی عقیدے والوں کے ملک کی ہے۔قرآن کو جلانے والے مسیحی ہیں۔اس چیز کا اثر پاکستان کے مسلمانوں پر خطرناک انداز میں ہو رہا ہے۔ جڑانوالہ سے پہلے خانیوال اور بادامی باغ لاہور کے واقعات سامنے رکھیں۔ان واقعات میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے لوگوں کے ملوث ہونے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔جڑانوالہ میں ایک بڑا اور دو چھوٹے گرجا گھر توڑے اور جلائے گئے ہیں۔اگر ہم مسملمان انجیل کو الہامی کتاب مانتے ہیں تو ان واقعات میں گرجا گھروںمیں رکھی انجیل مقدس بھی جلی ہو گی۔ گویا یہاں کے لوگوں نے وہی کچھ کیا جو بھارت میں بی جے پی اور سویڈن میں بدبخت کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ تحریک لبیک والوں نے اشتعال پھیلایا۔تحریک لبیک کے مرکزی رہنما پیر مختار شاہ رضوی نے مجھے ایک ویڈیو کلپ بھیجا جس میں تحریک لبیک کے ڈویژنل امیر فیصل آباد میاں اکمل حسن جڑانوالہ میں خطاب کرتے ہوئے لوگوں کو گرجا گھر اور مسیحیوں کے مکانات جلانے سے روک رہے ہیں۔وہ قرآن کے اوراق جلانے والوں کے لئے سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم بے گناہوں کی جان و مال و آبرو کے تحفظ کا کہہ رہے ہیں۔ تحریک لبیک کے سربراہ جناب سعد رضوی نے بھی جلاو گھیراو کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا تاہم ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ جو لوگ قرآن کی بے حرمتی میں ملوث ہیں ان کو کڑی سزا دی جائے ۔پیر مختار شاہ رضوی کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ کسی نے یورپ میں آباد ہونے کے لئے یہ کھیل رچایا ہو تاکہ ثابت کر سکے کہ پاکستان میں مسیحی برادری کا رہنا کس قدر مشکل ہو گیا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نے مخالفت میں مسیحی افراد کے نام ا ور تصاویر موقع پر پھینک دی ہوں۔پیر مختار شاہ رضوی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جڑانوالہ میں اوراق قرآن کو جلا کر کوئی بہت بڑی سازش رچائی گئی ہو۔تحریک لبیک کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی آڑ میں ان کی جماعت پر پابندی کا سوچا جا رہا ہے۔ ۔یاد رہے پاکستان میں شمولیت کا ووٹ پنجاب اسمبلی میں برابر ہو گیا تھا۔اس موقع پر مسیحی سپیکر ایس کے سنگھا نے پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ میں تین روز سے اپنے مسیحی دوستوں سے کترا رہا ہوں۔ہمارے کالم نگار اور دفاعی ماہر بریگیڈیئر سمسن شرف اور بزرگ دوست جناب زہیر رانا نے عیسائیوں کے ساتھ نبی کریمؐ کے معاہدے کی کاپی مجھے بھیجی ہے۔عربی میں تحریر معاہدے کی ترجمہ شدہ نقل بھی ہمراہ ہے۔یہ واحد معاہدہ ہے جس پر نبی کریم کے ہاتھ نقش ہیں۔ خانقاہ سینٹ کیتھرائن کے چند متولی مدینہ آئے‘ نبی اکرمﷺ نے ان کی میزبانی فرمائی‘ متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیا‘ہمیں خطرہ ہے مسلمان جب طاقتور ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے‘ آپﷺ نے جواب دیا’’ آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے۔‘‘ جڑانوالہ کے طاقتور مسلمان کیا غلطی کر بیٹھے ۔