سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی بینک کس طرح اپنے بینکاری کے معاملات کو جو ہُوبہو کمرشل بینکوں کی طرح ہی ہیں، انہیں اسلامی بنا کر سادہ لوح مسلمانوں کو مطمئن کرتا ہے۔ ایک اسلامی بینک کیوں اسلامی نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب جان فاسٹر (John Foster) نے اپنے مشہور مضمون ’’اسلامی معیشت کی ناکامی‘‘ (The failure of Islamic finance) میں دیا ہے جو 15 جولائی 2010ء کو شائع ہوا تھا۔ جان فاسٹر مشہور میگزین "Islamic Business and Finance" کا بہت عرصہ ایڈیٹر رہا تھا۔ اس نے اپنے مضمون کا آغاز ہی مولانا تقی عثمانی کے 2008ء میں کہے گئے اس فقرے سے کیا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 85 فیصد سکوک یا اسلامی بانڈ غیر اسلامی ہیں۔ جان فاسٹر طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ مولانا تقی عثمانی جو اسلامی بینکاری کے جدِامجد (Grand daddy) ہیں، ان کا یہ بیان بالکل ایسے ہی ہے جیسے سرمایہ دارانہ نظام کا جدِامجد آدم سمتھ یہ کہے کہ آزادانہ معیشت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے اس بیان کی وجہ سے جان فاسٹر کے نزدیک پوری اسلامی بینکاری کے کرتا دھرتا لوگوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ یہ سکوک ہے کیا چیز جسے اسلامی فنانس کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ پاکستان واپڈا یہ چاہتا ہے کہ وہ بہت بڑا ڈیم تعمیر کرے اور اس کے لئے وہ چاہتا ہے کہ سرمایہ کاری مکمل اسلامی طریقے ہونی چاہئے۔ ایسا طریق کار صرف اسلامی بینک سے سرمایہ حاصل کرنے کی صورت میں ہی موجود ہے۔ اس کام کے لئے وہ پہلے ایک کمپنی تشکیل دیتا ہے جسے (SPV) "Special Purpose Vehicle" کہتے ہیں۔ اس کے دس ممبران میں سے چھ واپڈا کے اپنے ارکان ہوتے ہیں جبکہ باقی چار عام لوگوں یا سیاسی نمائندگان میں سے لئے جاتے ہیں۔ یہ کمپنی اس ڈیم کا ڈیزائن تیار کرواتی ہے اور پھر اس پر لاگت کا تخمینہ لگا کر اس ڈیم کی کل مالیت (Valuation) کرتی ہے جو تقریباً سو ارب روپے ہے۔ اب یہ کمپنی ایک اسلامی بینک کے پاس جاتی ہے کہ ہمیں سو ارب روپے کی سرمایہ کاری چاہئے۔ یہ اسلامی بینک سو ارب روپے کے ’’سکوک‘‘ یعنی بانڈ جاری کرتا ہے جسے لوگ اس ’’دھوکے‘‘ میں خریدتے ہیں کہ جب چند سالوں میں یہ سکوک یا بانڈ پختہ (Mature) ہوں گے تو ان پر انہیں جو بھی رقم زائد ملے گی یا ماہانہ ملتی رہے گی وہ ’’حلال‘‘ ہو گی۔ سکوک سے حاصل کردہ رقم واپڈا کی بنائی ہوئی کمپنی کو فراہم کر دی جاتی ہے جو اسے ڈیم کی تعمیر پر خرچ کرتی ہے۔ ڈیم تین سال میں تعمیر ہو جاتا ہے اور اس کے آغاز سے وہ سکوک ’’پختہ‘‘ (Mature) ہو جاتے ہیں۔ چونکہ اس کمپنی نے یہ ڈیم خود نہیں چلانا بلکہ ڈیم تو واپڈا نے چلانا ہے۔ اس لئے واپڈا اپنی ہی بنائی ہوئی اس کمپنی سے ڈیم ایک ’’فکسڈ‘‘ ریٹ پر کرائے پر لے لیتا ہے اور جب تک وہ ڈیم پر چڑھے قرضے کی قسطیں پوری نہیں کرتا یہ ان اقساط کے ساتھ ساتھ ڈیم کا کرایہ بھی ادا کرتا رہتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کرایہ اسلامی بینک بھی دنیا بھر میں موجودہ شرح سود KIBOR یا LIBOR کو دیکھ کر وصول کرتا ہے۔ یوں ان سکوک خریدنے والوں کو مسلسل منافع دیا جاتا ہے جو عموماً کہ ایک ’’فکسڈ‘‘ کرائے کی صورت میں حاصل کیا جاتا ہے اور اسے عین ’’اسلامی‘‘ منافع قرار دیا جاتا ہے۔ اس سارے گورکھ دھندے کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی بینکاری نے آج تک خود اپنے طور پر کوئی ابھی ایسا طریقِ کار (Product or instrument) تیار ہی نہیں کیا بلکہ اس کی تمام تر بنیاد کمرشل بینکوں کے ہی طریقِ کار کو اسلام کا نام دے کر اسے اسلامی بنانے پر ہے۔ مثلاً اسلامی رہن (Morgage)، اسلامی موٹر قرضہ (Car Leasing)، اسلامی کریڈٹ کارڈ، اسلامی ٹائم ڈیپازٹ، اسلامی تکافل (Islamic insurance) یہاں تک کہ (Islamic Managed & Hedge funds) وغیرہ۔ یہ تمام کمرشل اور مروّجہ (Conventional) بینکاری کے طریقے ہیں جن پر اسلامی غلاف چڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً کمرشل بینکوں کی کار "Leasing" لیزنگ اور اسلامک بینک کی لیزنگ میں فرق یہ ہے کہ اگر آپ ایک عام کمرشل بینک سے لیز پر گاڑی لیں گے تو وہ آپ کو صاف صاف بتا دے گا کہ یہ بیس لاکھ کی گاڑی ہے اور پچاس قسطوں میں آپ بائیس لاکھ روپے دیں گے جس میں دو لاکھ روپے سود ہو گا۔ لیکن اسلامی بینک یہ کہتا ہے کہ میں یہ گاڑی خرید کر آپ کو کرائے پر دیتا ہوں اور اس کی گاڑی کی بیس لاکھ قیمت ہے جو آپ پچاس قسطوں میں ادا کریں گے، لیکن چونکہ یہ گاڑی میری ملکیت ہے اس لئے آپ ان قسطوں کے ساتھ ساتھ دو لاکھ روپے کرائے کی بھی قسطیں ادا کریں گے کیونکہ گاڑی تو آپ کی اس وقت ہو گی جب آپ پوری قسطیں ادا کر دیں گے۔ یوں عام سودی بینک بیس لاکھ پر دو لاکھ سود وصول کرتا ہے اور ایک اسلامی بینک الحمدللہ دو لاکھ ’’کرایہ‘‘ وصول کر کے عین اسلامی معیشت کو فروغ دے رہا ہوتا ہے۔ یہ فریب دہی دنیا میں تو چل سکتی ہے اور چل بھی رہی ہے لیکن کیا آپ روزِ آخرت اللہ کو اپنے ان حیلوں کا کوئی جواز پیش کر سکو گے؟۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا، تو یا تو وہ کم قیمت پر بیچے گا اور اگر زیادہ پر بیچے گا تو سود لے گا‘‘۔ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’ایک عقد میں دو معاملے کرنا سود ہے‘‘۔ (ایک عقد میں دو معاملے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کہے کہ اگر تم نقد لو گے تو اتنے میں اور اگر اُدھار لو گے تو اتنے میں) اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ ’’ایک سودے میں دو معاملے کرنا حلال نہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے دونوں گواہوں اور لکھنے والے پر لعنت کی ہے‘‘۔ (ابن حبان 8/242)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ اشیاء کی خرید و فروخت میں اُدھار کی صورت جو ساتھ رقم بڑھائی جاتی ہے وہ سود ہے، خواہ یہ صرف ایک بار بڑھائی جائے یا ہر ماہ گزرنے پر اضافہ کیا جائے‘‘ (ابن ابی شیبہ، ابو دائود، ابن حبان) ۔ جس طرح مروّجہ بینکاری نظام کو تباہی سے بچانے کے لئے ایک انشورنس کا مکمل نظام قائم کیا گیا ہے جس میں اگر بینک ڈوبتا ہے تو اسے بچانے کے لئے کھاتے داروں کی صحت، زندگی، مکان، گاڑی وغیرہ کی انشورنس سے جو رقم حاصل کی گئی ہوتی ہے، اس سے بینک کو دوبارہ زندہ کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلامی بینکاری کے تحفظ کے لئے باقاعدہ ’’اسلامی تکافل‘‘ ویسا ہی کا نظام وضع کیا گیا جو سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک جزولاینفک ہے۔ اس پورے نظام کا تفصیلاً جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے جیسے کارپردازانِ سودی بینکاری نے اسلامی غلاف اوڑھ رکھا ہے۔ اسلامی بینکاری دراصل بریٹن ووڈ کے سودی مالیاتی نظام کا ایک زہریلا پھول ہے جو اس نظام کی سب سے بنیادی چیز یعنی مصنوعی اور جعلی غیر اسلامی کاغذی کرنسی کو بھی چیلنج نہیں کرتی اور نہ ہی اسلامی کرنسی، نقدین یعنی چاندی اور سونے کو سرمائے کی بنیاد بناتی ہے۔ جس طرح پوری دنیا نے ڈالر پر ایمان لا کر اسے سٹینڈرڈ مانا ہوا ہے اسی طرح اسلامی بینکاری بھی ڈالر کے ہاتھ پر بیعت کئے ہوئے ہے۔ (ختم شد)