گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ ( نواز ) کے صدر شہباز شریف نے ایک حکمنامہ کے ذریعہ نواز شریف کی بیٹی اور اپنی بھتیجی مریم نواز کو جماعت کا سینئر نائب صدر نامزد کردیا ہے۔انہیں جماعت کی تنظیم سازی کی ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔ اس تبدیلی سے یہ تاثر بھی لیا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی ( اگر ملی تو) کے بعد وہ حکومت میں اہم منصب کی امیدوار ہو نگی۔ پاکستان سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کے نام پر سیاست کرتی ہیں اور حکومت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہیں بالعموم جماعت کی داخلی سطح پر جمہوری طرز عمل اختیار کرنے سے گریز کرتی ہیں ۔ قیادت کی تشکیل ہو یا اہم فیصلے ، اس کے لئے اول تو مشاورت کا کوئی مستقل نظم اور طریقہ ء کار موجود نہیں ہوتا اگر کسی موقع پر اور کسی سطح پر مشاورت کا عمل بہت ضروری بھی ہو تو وہ محض ایک رسمی کاروائی کے سوا اورکچھ نہیں ہوتی ۔ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق سیاسی جماعتوں کو داخلی سطح پر انتخابی عمل کے ذریعہ قیادت کی تشکیل کو ممکن بنایا جانا چاہیئے مگر ان قواعد کی پابندی کو بھی اکثر سیاسی جماعتیں ایک رسمی کارروائی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتیں۔انتخابی عمل کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے وہ بڑی حد تک یک طرفہ اور مقابلے کی روح سے عاری ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کو البتہ ایک استثنا حاصل ہے ۔جماعت اسلامی کی ایک مستقل مجلس شوری ج طے شدہ مدت کے لئے اپنے امیر کا انتخاب کرتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ جماعت اسلامی میں قیادت نہ تو موروثی ہو سکی اور نہ ہی اس میں کسی ایک خاندان یا کسی شخصیت کی اجارہ داری ممکن ہو سکی ۔پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی داخلی تنظیم انتخابی عمل کے بجائے قیادت کی پسند اور نامزدگی پر ہی قائم ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا طرز عمل کچھ زیادہ ہی غیر جمہوری نظر آتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ابھی حال ہی میں مسلم لیگ نواز کو جماعت کے اندر انتخابی عمل کے نہ ہونے پر یہ کہتے ہوئے ، کہ جو جماعت اپنے الیکشن نہیں کراسکتی وہ اور کیا کریگی ، شو کاز نوٹس جاری کیا ہے ۔ایک قومی سیاسی جماعت جو وفاق اور صوبوں میں کئی بار حکومت بنا چکی ہو اس کا اس طرح کا غیر سنجیدہ طرز عمل نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ غیر سیاسی بھی ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے مسلم لیگ نواز کا طرز عمل جمہوری تناظر میں کبھی بھی مثالی نہیں رہا ،اپنے آغاز سے ہی اس کی کامیابی میں غیر سیاسی قوتوں کا بڑا دخل ر ہا ہے۔ کئی با ر حکومت میں آنے اور پھر جانے کے تجربات کے بعد بھی اس کے غیر جمہوری اور غیر سیاسی طرز عمل میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکی۔ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد جس طرح کے غیر معمولی حالات کا اسے سامنا رہا اور نواز شریف کو وزارت عظمی سے الگ ہونے کی سیاسی ہزیمت اٹھانی پڑی تو یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب مسلم لیگ اپنی سیاست میں خواص کی مدد اور تعاون کے حصول کے بجائے عوام کی حمایت اور ان کے مفادات کو ترجیح دے گی ۔ اور جماعت کی قیادت میں خاندانی اجارہ داری کو کم کرتے ہوئے دیگر سیاست دانوں کو بھی اس سلسلے میں اہمیت حاصل ہوگی ۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔مسلم لیگ کا طرز عمل اب بھی وہی ہے نواز شریف سمجھتے ہیں کہ عوام میں ان کی مقبولیت آج بھی قائم ہے ان کے فیصلوں کو جماعت کے اند ر مکمل پذیرائی حاصل ہے اور جماعت پر ان کی گرفت آج بھی مضبوط ہے ۔یہ خیال کسی حد تک تو درست ہو سکتا ہے مگر مکمل نہیں ۔ نہ تو جماعت پر ان کی گرفت مضبوط رہی ہے اور نہ ہی ان کی عوامی مقبولیت قابل بھروسہ رہی ہے پھر یہ کہ نہ صرف ان کی سیاسی جماعت کے اندرگروہ بندی ہے بلکہ خود ان کے خاندان میں بھی قیادت ،اختیارات اور بالا دستی کی کشمکش موجود ہے۔ایسے میں مریم نواز کی جماعت کے اندر اہم منصب پر نامزدگی نے صورت حال کو اور بھی گھمبیر بنادیا ہے۔ قیادت پر خاندن کے افراد کے تسلسل سے جماعت میں موجود دیگر اہل سیاسی قائدین کی حق تلفی ہوتی ہے قیادت کی نمو رک جاتی ہے اور سیاسی جماعت کی ترقی اور اس کی عوامی مقبولیت میں بتدریج کمی آنے لگتی ہے ۔ جمہوری سیاسی عمل کا بنیادی تقاضہ ہی یہ ہے کہ اختیارات اور اقتدار کا ارتکاز نہ ہو یہ طے شدہ طریقہ ء کار کے مطابق منتقل ہوتا رہے ۔ یہاں سوال مریم نواز کی اہلیت یا کارکردگی کا نہیں ہے طریقہ ء کار کا ہے جس طرح ان کا تقرر کیا گیا ہے او ر جماعت میں انہیں جس مقام پر فائز کیا گیا ہے وہ ان کی اہلیت ،کارکردگی اور جماعت سے ان کے تعلق کے بجائے سراسر قرابت داری کی بنیاد پر ملا ہے ۔یہ ہی نکتہ ء اعتراض ہے ۔ سیاسی جماعت میں مناصب اور اختیارات کی تفویض مرحلہ وار اور بتدریج ہونی چاہیئے تاکہ جہاں جماعت سے اس کی وابستگی مستحکم ہوتی رہے تو وہاں جماعت کے اندر اس کی سیاسی تربیت بھی جاری رہے اور جب یہ دونوں مراحل پختگی حاصل کرلیں تب اسے اس کی اہلیت اورسیاسی کارکردگی کے مطابق جماعت میں ذمہ داری ملے۔اس طرح سیاسی جماعت میں قیادت کے لئے ہر ایک کے لئے مواقع مئیسرہونگے۔یہ ہی جمہوری عمل کا مقصد بھی ہے اور تقاضہ بھی۔مگر زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں بالعموم اس طرز عمل سے مانوس نہیں۔ اس سال اپریل میں اتحادی حکومت کے قیام کے بعد اس کی جو کارکردگی سامنے آئی ہے اس نے مسلم لیگ کو سب سے زیادہ زک پہنچائی ہے ۔اور اس کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے جس کا اظہار ضمنی انتخابات میں اس کی مسلسل ناکامی سے ہوا ہے ۔وفاق میں حکومت حاصل کرنے کی عجلت سے اتحادی حکومت کے قائدین کو ایک ہی فائدہ حاصل ہوا اور وہ یہ کہ نیب قوانین میں ترامیم کے ذریعہ ان کے مقدمات ختم ہو گئے یا انہیں کمزور کردیا گیا ہے۔تاہم اس کے عوض نا مساعد حالات میں مشکل فیصلوں سے مسلم لیگ نواز کو سیاسی سطح پر جو نقصان پہنچا قیادت اس کا ادراک کرنے سے قاصررہی ہے ۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ مسلم لیگ کو عوامی سطح پر متحرک کیا جاتا اور ایک نئی قیادت کو سامنے لا کر جماعت کو خاندان کی قید سے نکال کر اس کے جمہوری تشخص کو کسی طور بہتر کیا جاتا مگر لگتا یہ ہے کہ مسلم لیگ کے قائدین کے پیش نظر جمہوری اقدار کا فروغ یا اس کا استحکام نہیں ۔ان کی سیاست کا ہدف تو بس اقتدار کا حصول ہے ۔مگر وہ یہ نہیںجانتے کہ ان کے غیر جمہوری رویوں اور کارکردگی کے باعث اور عمران خان کی موجودہ مقبولیت اور عوامی پذیرائی کی صورت اقتدار کا ہدف ان سے مسلسل دور ہوتا جارہاہے۔ ٭٭٭٭٭