اگر آپ کو عید کی مصروفیت سے کچھ فراغت ملی ہے اور آپ اخبار میں میرا کالم پڑھ رہے ہیں تو آپ سے یہی کہنا ہے کہ آج بڑی عید کا دن ہے تو اس کو بڑے دل کے ساتھ گزاریں۔یہ بڑے دل کے ساتھ اس کو گزارنا کیا ہوتا ہے چلیے اس پہ بات کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ مشق رائج ہے کہ عید الاضحی میں قربانی کے بعد گوشت کا بہترین حصہ ڈیپ فریزر میں خود رکھ لیا جاتا ہے اور باقی کا حصہ غریبوں میں بانٹا جاتا ہے یا پھر آپس میں خوشحال خاندانوں یا عزیز و اقارب، دوست احباب میں ران بطور تحفہ بھیجی جاتی ہے ۔ یہ پریکٹس دیکھ کر مجھے ہمیشہ الجھن ہوتی ہے۔ سفید پوش اور غریب طبقے میں ہمارا ملک ہمیشہ سے ہی خود کفیل رہا ہے مگر گذشتہ چار ساڑھے چار سال میں غربت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مڈل کلاس رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ سفید پوش طبقہ زیادہ پھیل چکا ہے۔دیکھا جائے تو سب سے زیادہ معاشی اذیت میں سفید پوش طبقہ رہتا ہے ۔ یہ اپنے دکھ بھی کسی کو نہیں بتا سکتے۔ کسی سے مانگ نہیں سکتے مگر انہیں اپنی ضرورتیں بھی ہر حال میں پوری کرنی پڑتی ہیں۔ قربانی کرنا اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ اب یہ متوسط طبقے کے لیے بھی آسان نہیں رہا لیکن اگر آپ اس طوفانی مہنگائی کے دور میں بھی قربانی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سارا سال اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں ۔آپ کا فریج گوشت سے بھرا رہتا ہے، آپ بار بی کیو بھی کھاتے ہیں سٹیکس کے ذائقے سے بھی آ شنا ہیں ۔ آلو گوشت تسلسل سے آپ کے گھر پکتا ہے ۔ کڑاہیاں ،نہاریاں ، پائے بھی سارا سال اڑاتے رہے ہیں اور اب عید الاضحی کے موقع پر اگر آپ کو اللہ نے قربانی کی توفیق دی ہے تو قربانی کے گوشت کے بڑے حصے کو اپنے فریج کی زینت نہ بنائیں نہ ہی اپنے افسران سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے سالم ران کے تحفے ان کے گھروں میں بطور رشوت بھجوائیں۔ جی بڑا کریں اور قربانی کے سارے گوشت اچھی طرح مکس کرکے اس کے تین حصے بنا لیں ۔ کوشش کریں کہ دو حصے آپ غریبوں اور ضرورت مند عزیزو ں میں بانٹیں ۔اگرچہ اس پر قدغن کوئی نہیں کہ آپ خوشحال دوستوں اور کھاتے پیتے رشتہ داروں کو اپنی طرف سے گوشت کا تحفہ نہیں بھجوا سکتے۔ لیکن احساس کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ کہ راہ میں کی گئی قربانی کو زیادہ سے زیادہ ضرورت مند مخلوق تک پہنچائیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کے ان گھروں میں گوشت پہنچائیں جو کسی کے دروازے پر مانگنے نہیں گئے۔ اس وقت ہمارے بیشتر ہم وطن شدید معاشی تنگدستی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔عید خوشی کا موقع ہے اسی خوشی کے موقع پر جب جیب خالی ہو، چولہا ٹھنڈا ہو تو تکلیف بڑھ جاتی ہے ۔قربانی کا جذبہ یہی ہے کہ اس موقع پر ایسے ضرورتمندوں کی تکلیف کم کریں اور ان کے لیے خوشی کا باعث بنیں۔ طوفانی رفتار سے بڑھنے والی مہنگائی نے وطن عزیز کے متوسط سفید پوش اور غریب طبقہ کو سخت مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔ اس دن کے موقع پر اس معاشی کم مائیگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ اپنے خستہ در و دیوار والے گھر میں خاموش پڑا ہوا چولہا کسی مسلمان بھائی کی مہربانی کے انتظار میں عید کے روز صاحب خانہ کو بہت تکلیف دیتا ہے۔ایسے خستہ مکانوں میں بسنے والے والدین اپنے دکھوں کو اپنے بچوں سے چھپا نہیں سکتے۔ان کے دکھ خالی برتنوں، آٹے کے آدھ بھرے کنستر اور ٹھنڈ ے چولہے کی خاموش نگاہی میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے نادار والدین پر تو یہ شعر بھی صادق نہیں آتا کہ: گھر کی اک بار مکمل میں تلاشی لوں گا غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے ہیں اس لیے کہ غریبی اور خستہ حالی کے غم گھر کے ہر کونے میں پڑے نظر آتے ہیں۔ اس عید پر گزارش یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے کے غریبوں کا خیال ضرور رکھیں ،آپ کے گھر میں کام کرنے والی میڈ، مالی دیگر کام کرنے والے ملازم یا جو بھی ملازمین آتے ہیں جنہیں آپ تنخواہ دیتے ہیں ،مہنگائی بہت ہے تنخواہیں ضرورتوں کے سامنے چھوٹی پڑ گئی ہیں ۔صرف گھی کی بات کریں تو وہ 600 تک پہنچ چکا ہے اور یہ عید تو ہے ہی کھاناپکانے والی۔ ہوسکے تو کچھ راشن انہیں خرید دیں یا کچھ پیسے اوپر دے دیں کہ وہ ہانڈی بنانے کے لیے ضرورت کی کچھ چیزیں لے سکیں۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو عید کا دن ہوگا ۔ اگر تو آپ نے ہمدردی کے اس جذبے کا مظاہرہ اپنے ملازمین کے ساتھ کیا ہے تو آپ اللہ کے وہ چنے ہوئے بندے ہیں جنہیں اللہ اپنی مخلوق کی آسانی کے لیے وسیلہ بناتا ہے اور اگر اللہ کے دیے ہوئے کشادہ رزق میں سے آپ اپنے آس پاس کے ضرورتمندوں کے لیے، اپنے گھر کے ملازمین کے لیے ایسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کر پائے تو ابھی بھی وقت نہیں گیا آج ہی آپ ان کو زندگی میں آسانی دیجئے۔ اپنے غریب ملازمین کو گوشت کے پیکٹ کے ساتھ ساتھ تھوڑے سے پیسے دے دیں تاکہ اسے پکانے کے لیے ضروری اشیاء بھی خرید سکیں۔ آخر میں ایک ضروری بات کہ قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو اپنے گھر کے باہر گلی کوچوں اور سڑکوں کے کنارے پھینک کر آپ ہرگز بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ ان آلائشوں کو مناسب طریقہ سے ٹھکانے لگانے کے لیے خود کوشش کریں ۔ آپ اپنے اپنے شہر کی انتظامیہ کے دیئے ہوئے ہیلپ نمبر پر فون کرکے انہیں چند لوگوں کی آلائشیں اٹھانے کا کہیں اور ان خاکروبوں کو صفائی کرنے کے چند سو روپے بخوشی اپنی جیب سے ادا کر دیں گے تو عید کے روز کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوجائے گی۔ بڑی عید کا دن ہے۔۔بڑے دل سے گزاریں !