امریکہ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے امریکی ایوان نمائندگان کی ذیلی کمیٹی میں پاکستان کے الیکشن سے متعلق اجلاس میں پیش ہو کر بیان دیا ہے کہ سائفر کو امریکی سازش کہنے کا بانی پی ٹی آئی کا الزام سراسر جھوٹ ہے۔ ڈونلڈلو کے بیان کے دوران ’’جھوٹ جھوٹ‘‘ کے نعرے بھی لگے، اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان کے معاشی چیلنجز اور قرضوں کے بوجھ میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی گونج اس وقت پوری دنیا میں ہے۔ ڈونلڈ لو ایک جانب اس پر امریکی مداخلت کی ترید کر رہے رہے ہیں حالانکہ بانی پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں گذشتہ دنوں سزا سنائی جاچکی ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے تین اجلاسوں میں مداخلت کو تسلیم کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی لیکن سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے جبکہ دوسری طرف ڈونلڈ لو اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ ہو، اچنبے کی بات ہے کہ پاکستان میں معاشی و اقتصادی استحکام کی بابت امریک میں نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور مادر وطن میں معشیت کے عدم استحکام کی بڑی وجہ توانائی کے بحران کے حل کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کرنے کی مختلف عذر بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ ماضی قریب میں بھارت متعدد چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیر کر کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر چکا ہے جس پر امریکی خاموشی انتہائی دوہرے معیار کی شاہد ہے، موجودہ امریکی ریاستی ڈھانچے کے سربراہان کے بارے میں باخبر حلقوں کے اندر پرویز مشرف دور میں ملک کی اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی انڈرسٹینڈنگ کا خوب چرچا ہے اور ایسے میں ڈونلڈ لو کے بیان نے مزید کئی ابہام پیدا کیے ہیں، اس پر سب سے اہم سوال یہی اٹھ رہا ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی اور معاشی استحکام یا عدم استحکام پر انٹرنیشنل پلیئرز کے کیا عزائم ہیں؟ پاکستان اپنی سٹریٹیجک اور جغرافیائی حیثیت کے باعث ہر دور میں عالمی رجحانات اور اس کے پیش نظر تشکیل پانے والی پالیسوں کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکا، ان دنوں ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار ہیں، جن کا تازہ ارشاد ہے کہ ملک میں ایک عظیم معیشت بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں تاہم اقتصادی سفارت کاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، حیرت ہے: ڈار صاحب تاحال معشیت کو عظیم تر کرنے کے فقط خواب ہی قوم کو دکھا رہے ہیں، درحقیقت عالمی طاقتوں نے ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت وطن عزیز کی معشیت کو جکڑ رکھا ہے اور اس کھیل میں ہمارے حکمرانوں کا کردار ناقابل نظر انداز ہے، اس کا حالیہ ثبوت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانیوالے سٹاف لیول معاہدہ ہے، آئی ایم ایف نے پاکستان سے مذاکرات کے بعد اعلامیہ میں واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان نے نئے سٹینڈ بائی پروگرام کی شرائط پرسختی سے عمل درآمد کیا اور معاشی اہداف پر بہترین کارکردگی دکھائی۔ آئی ایم ایف اعلامیے میں کہا گیا کہ اسٹینڈ بائی معاہدے کا دوسرا اقتصادی جائزہ کامیابی سے مکمل ہوا، پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے جاری ہوں گے، آئی ایم ایف نے بتایا کہ پاکستان نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے، جس سے پاکستان میں مہنگائی اہداف کے مطابق کم ہو رہی ہے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک اور نگراں حکومت نے حالیہ مہینوں میں شرائط پر سختی سے عمل درآمد کیا اور نئی حکومت نے بھی معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا، گویا مہنگائی بڑھتی رہے گی، کیا اس کے بعد کسی کو توقع ہے کہ اسلامی فلاحی مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے، معاشی و اقتصادی خوشحالی کے سہانے خواب دکھانے والے حکمران آئی ایم ایف کو نجکاری پروگرام پر کام تیز کرنے کی یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں، جس کے تحت وزارت خزانہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا پلان بنا لیا ہے، قومی ائیر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل جلد مکمل کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر اس وقت 25 ادارے نجکاری کی فعال فہرست میں شامل ہیں، نجی ٹی وی چینل کے مطابق نجکاری پروگرام میں فنانشل، ریئل اسٹیٹ سے منسلک 4,4 ادارے، انڈسٹریل سیکٹر کے 2 ادارے اور توانائی شعبے کے 14 ادارے نجکاری پروگرام میں شامل ہیں، بلوکی، حویلی بہادر، گدو، نندی پور پاور پلانٹس بھی نجکاری پروگرام کا حصہ ہیں اور 10 سرکاری بجلی تقسیم کارکمپنیاں فعال نجکاری فہرست میں شامل ہیں، نجکاری پروگرام میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک، پاکستان انجینئرنگ کمپنی، سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ بھی نجکاری فہرست میں شامل ہیں، دراصل موجودہ حکومت کا معاشی و اقتصادی ترقی کا سارا وژن آئی ایم ایف کے قرضوں تکمحدود ہے، اسی لیے حکومت کے دوسرے ہفتے بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 1 اعشاریہ 35 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس طرح سے ہفتہ وار مہنگائی کی سالانہ شرح 32.89 فیصد کی سطح پر ریکارڈ ہوئی لیکن حکمران معشیت کی ترقی کے انتھک دعوئوں میں مصروف کر رہے ہیں اور اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کے اجراء کے موقع پر دعویٰ کیا گیا کہ ماہ فروری میں مہنگائی کی شرح 28.3 فیصد سے کم ہو کر 23.1 فیصد ہو گئی، کیا ماہ صیام میں مہنگائی کا بے قابو اور سرکش جن ارباب اختیار کو ستم ڈھاتا نظر نہیں آتا۔