پاکستان خاص طور پر پنجاب میں اس وقت احتساب کا نظام رائج ہے،کون سا؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے مسعود مختار اور ڈاکٹر آصف طفیل اور یکے بعد دیگرے پنجاب صوبائی سروس کے خرم شہزاد اور رائو پرویز کے خلاف انٹی کرپشن کے مقدمات نے بیوروکریسی میںناصرف ہلچل مچا دی ہے بلکہ عجیب خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ڈاکٹر آصف طفیل اور مسعود مختار وفاقی سول سروس کے انتہائی اپ رائٹ اور قابل ترین افسران ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹرخرم شہزاد اور رائو پرویز اختر صوبائی سول سروس کے انتہائی خوش اخلاق قابل آفیسر،بہترین دماغ اور ملٹی ٹاسک اچیور کے طور پر مشہور ہیں۔ محمد خان بھٹی کی ڈرامائی تعنیاتی کا سب کو معلوم ہے کہ کیسے چوہدری پرویز الہیٰ نے بطور وزیر اعلیٰ حلف برداری کیلئے جاتے ہوئے رات گئے حکم دیا تھا کہ میرے حلف سے پہلے پہلے محمد خان بھٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجانا چاہئے ۔محمد خان بھٹی کی تقرری غیر متوقع یا نئی بات اس لیے بھی نہیں تھی کہ ماضی میں بھی جب چوہدری پرویز الہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے محمد خان بھٹی کو ایڈیشنل سیکرٹری جبکہ بعد ازاں سپیشل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر لگائے رکھا تھا۔محمد خان بھٹی کی بطور پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر تقرری پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پنجاب پرونشل سروس کے افسران خودناخوش اور باہم افسوس کا اظہار کرتے تھے۔اسی طرح محکمہ تعلقات عامہ میں گریڈ بیس اور انیس کے سنیئر افسران کی موجودگی کے باوجود گریڈ اٹھارہ کے فراز احمد کی بطور ڈی جی تقرری پر سارا ڈی جی پی آر خفا تھا ۔ لیکن پرویز الہیٰ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنا تو درکنار بولنے کی جسارت بھی نہیں کرتے تھے۔کیونکہ جس نے بھی ماورائے قانون اقدام کے خلاف بولنے یا سمجھانے کی کوشش کی اسے لامتناہی عرصے کیلئے کھڈے لائن کر دیا جاتا تھا۔ایسے میں کوئی بھی سول سرونٹ بادشاہ سلامت کی حکم عدولی کا کیسے سوچ سکتا تھا۔ حالیہ پکڑ دھکڑ میں پرونشل مینجمنٹ سروس اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کے خلاف تو کیس رجسٹرڈ ہوئے لیکن کسی پولیس افسر کے خلاف کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس سروس کے تمام افسر انتہائی ایماندار اور دیانتدار ہیں۔ جبکہ مجھے یاد ہے کہ بزدار دور میں بہاولپور سے ایک خاتون دوست نے ڈرائیونگ لائسنس کیلئے درخواست کی تو میں نے اپنے قریبی دوست ایس ایس پی اختر فاروق سے درخواست کی کہ بہاولپورکے ڈی پی او کی ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے اس لیے میں اسکو کہنا نہیں چاہتا آپ کا بیچ میٹ ہے آپ اس کو ریکوسٹ کردیں۔ اختر نے مجھے سکرین شاٹ بھی شئیر کیا کہ ڈی پی او کو کہہ دیا ہے لیکن پھر بھی اس بدنام زمانہ ڈی پی او نے کام نہ کیا تو میں نے اس میڈیا کی دوست سے معذرت کی ۔ اس نے مجھے دو دن بعد لائسنس کی کاپی بھیج دی کہ پانچ ہزار میں بن گیا ، آپ اندازہ لگائیں ۔ پولیس سروس کے ڈی جی اینٹی کرپشن کے ہوتے ہوئے پولیس افسر تو دور کی بات ماتحت پولیس والوں کے خلاف بھی کوئی بڑا کیس یا کارروائی سامنے نہیں آئی۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پولیس سروس کے سارے افراد غلط ہیں۔ پی ایس پیز کی اکژیت اچھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ کئی دہائیوں سے بیوروکریسی کو گالی بنا دیا گیا ہے،کبھی سرکاری گاڑیوں اور دوسری سہولیات پر تنقید کی جاتی ہے تو کبھی کسی بات پر۔دنیا بھر میں پالیسی سازی اور عملدرآمد کے معاملہ میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے،حکمرانوں نے تمام اختیارات کا مرکز اپنی ذات کو بنا لیا،اس صورت حال میں بیورو کریسی پر نا اہلی،بد عنوانی، قانون شکنی کاالزام نہیں دھرا جا سکتا،بلکہ تمام صورتِ حال کی ذمہ دار حکومتیں ہیں، ترقی تبادلے پوسٹنگ کے لئے اصول قانون کار کردگی نہیں، بلکہ سیاسی پشت پناہی اہمیت اختیار کر گئی۔اگرچہ بیوروکریسی میں بھی خامیاں موجود ہیں اور ان کو درست کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ سب کوایک ہی لاٹھی سے ہانکنا۔افسران اپنی پوزیشن بچانے کی خاطر سیاستدانوں کے غلط احکامات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں،کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ حکومتی جلسے کامیاب بنانے کے لیئے افرادی قوت مہیا کرنا بھی متعلقہ ڈی سی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے کی جرات کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ان حالات میں ایک سول سرونٹ عام آدمی کی خدمت کیسے کر سکتا ہے؟اگروزیر اعلیٰ کے حکم پر سمریاں بنانے اور پیش کرنے کی بنیاد پر اعلیٰ افسروں کے خلاف مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں ہونی ہیں تو افسران کام کرنا ہی بند کر دیں گے، وہ کوئی سمری پٹ اپ کرنے، نوٹ لکھنے اور فائل کی منظوری دیتے وقت ہزار بار سوچیں گے۔ سمریوں اور مفروضوں کی بنیاد پرنشانہ بننے والے اچھی شہرت کے حامل افسران کے خلاف ایف آئی آر سراسر جلدبازی اور انتقامی رویہ نظر آتا ہے۔محمد خان بھٹی کی تقرری والی ایف آئی آر میں انٹی کرپشن نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ کی پوسٹ ایک کیڈر سیٹ ہے اور اس پر کسی دوسرے ادارے کا ملازم محمد خان بھٹی ڈیپوٹیشن پر تعینات نہیں ہو سکتا،دوسری طرف ڈی جی انٹی کرپشن پنجاب سہیل ظفر چٹھہ خود نان کیڈر ہیں ۔ ڈی جی انٹی کرپشن پنجاب گریڈ اکیس کی سیٹ ہے لیکن جس وقت سہیل ظفر چٹھہ کو ڈی جی انٹی کرپشن لگایا گیا وہ گریڈ انیس میں ایس ایس پی تھے اور نان کیڈر ہونے کی وجہ سے ان کوڈیپوٹیشن پر لیا گیا۔ماضی میں جب نیب کی انتقامی کاروائیاں عروج پر تھیں،فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو انتقام کی آڑ میں گرفتار اور ہراساں کیا گیا تو اس قدر خوف و ہراس کی کیفیت تھی کہ افسران کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے پہلو تہیکرنے لگے جس کی وجہ سے ملکی انتظامی معاملات خراب ہونا شروع ہو گئے ۔ اینٹی کرپشن اور احتساب کے دیگر اداروں کو سینئر افسران کے خلاف کسی ایکشن یا ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے چیف سیکرٹری کی اجازت مشروط ہونی چاہئے۔ سینئر انتظامی افسران کی بغیر تحقیق گرفتاری اور مقدمات کا اندراج اختیارات سے تجاوز ہے ۔ جب سینئر افسران کیخلاف ناجائز مقدمات درج ہو رہے ہوں،اس قسم کے مقدمات کے اندراج کے بعد ہماری بیوروکریسی کیسے ڈیلیور کر سکے گی ،اگر عوام کو بروقت سہولیات اور انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانا ہے تو ہمیں بیوروکریسی کو عزت اور کام کرنے کی آزادی دینا ہو گی۔