برسوں کے بعد میں اس ننھیالی گلی کے سامنے کھڑی تھی۔یادوں کے کتنے ہی دھند آلود منظر تصویروں کے بے ترتیب ڈھیر کی صورت میرے سامنے پڑے تھے۔خانپور سے گوجرانوالہ تک ریل گاڑی کا سفر۔ پھر سٹیشن سے تانگے کی سواری پر بیٹھنا کوچوان کاسفری سامان کے نگ احتیاط سے گن کر تانگے کے آگے اور پیچھے سیٹوں کے نیچے گھسیڑنا۔سٹیشن سے مختلف سڑکوں سے گزرتا ہوا محلہ بختے والا کی گلی قاضیاں کے سامنے تانگے کا رکنا۔جیسے جیسے ننھیالی گھر قریب آنے لگتا ہم سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوتے۔ کشادہ سڑک کے ساتھ ہی ایک گلی اندر کو نکل جاتی، تانگہ سڑک کے کنارے کھڑا ہوتا۔اس دور کا مزہ یہ تھا کہ موبائل فونوں کی طرح پل پل کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ ہمیں اسوقت تار سے بندھے ہوئے سادہ زمینی فون بھی دستیاب نہ تھے۔ سو ننھیالی گھرمیں ہماری آمد ایک حیرت آمیز خوشی کا باعث بنتی۔ گلی کے دونوں اطراف امی جان کے تایے چاچوں اور ان کی اولادوں کے گھر تھے۔ انہیں میں ایک نانا جان کا گھر تھا۔لکڑی کی پرانی طرز کے اوپر سے قدرے گولائی میں ڈھلے دروازے پر دستک دی جاتی اور ملگجے اندھیرے میں ڈوبی ڈیوڑھی رشتوں کی مہک سے بھر جاتی۔ آج اس گلی کو پہلی بار اپنی ماں کی نظر سے دیکھا۔ گلی کا پرانا نقشہ بدل چکا تھا۔ جن چہروں کو دیکھتے ہی میری ماں کا سفر کی تھکاوٹ سے بجھا ہوا چہرہ کھل اٹھتا تھا اب ان میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا۔انہیں خود بھی منوں مٹی تلے سوئے برسوں بیت گئے تھے۔ وہ دروازے جہاں سے مانوس چہرے جھانکتے اور گلی میں چاند چمکتے وہ دروازے سونے پڑے تھے۔بزرگوں کے دنیا سے جاتے ہی نئی نسل نے شہر کی نئی اور جدید آبادیوں میں گھر بنا لیے۔ یہاںموجود گھروں کی ہیئت بدل چکی تھی۔ اب نئے مکین ان گھروں میں آباد تھے۔ ذہن میں ایک یاد کا منظر ابھرا، میں کالج میں ہوں اور اپنی ڈائری پر کسی رسالے میں چھپے یہ اشعار لکھتی جاتی ہوں اور ساتھ ہی امی جان کو بھی سناتی ہوں: جن گلیوں میں پہلے دیکھیں لوگن کی رنگ رلیاں تھیں پھر دیکھا تو ان لوگاں بن سونی پڑی وہ گلیاں تھیں اس لمحے وہ ننھیالی گلی بس اسی شعر کی تصویر نظر آئی۔پھر ایک دروازے سے جھانکتی کچھ مانوس سی صورت نظر آئی ۔ میں بے اختیار ادھر لپکی، ماموں سعید اور مامی شمیم کی اکلوتی بیٹی شازیہ باجی کھڑی تھیں، مگر جو چہرہ میری یادوں میں محفوظ تھا وہ اس چہرے سے قطعاَ مختلف تھا جو اسوقت میرے سامنے تھا۔وقت ان کے چہرے پر خراشیں ڈال کر گزر گیا تھا آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں لوگ فسانے ہو جاتے۔۔۔! اسی روز کا ایک اور منظر ہے گوجرانولہ شہر کا ایک قبرستان تھا اور ایسا ہی قبرستان جیسے قبرستان ہوتے ہیں۔ اس کے آغاز سے پہلے دکانیں تھیں، ٹائروں کی ورکشاپ،چھوٹے چھوٹے چائے کے ڈھابے۔ ایک مسجد بھی راستے میں آتی ہے اور پھر راستہ کافی دور تک بس سنسان سا ہوتا جاتا ہے۔ پھر میلی اینٹوں کی دیوار راستے کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے۔اسی دیوار میں ایک کالے رنگ کا گیٹ نظر آتا ہے اور اس گیٹ کے اندر شہر خاموشاں آباد ہے۔ قبرستان میں داخل ہوتی ہوں اور خاموشی سے اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے چلتی ہوں۔محسوس ہوتا ہے کہ میرے قدموں کے ساتھ یادوں کے بھاری باٹ بندھے ہیں اور اس راستے پر اٹھتا ایک ایک قدم بوجھل ہے۔ کچھ قبروں کو بہت اہتمام سے پتھروں سے سجایا گیا ہے۔ کچھ محض مٹی کی ڈھیریاں ہیں۔ کسی پر پھول پڑے ہیں اور کسی پر ایک خشک پتہ تک نہیں ، کہیں تازہ پانی کا چھڑکاو ہے اور کچھ کی حالت بتا رہی ہے کہ دفنا کر زندگی کی طرف لوٹ جانے والے ہاتھ پھر کبھی پلٹ کر دعا کے لیے یہاں نہیں آئے۔اب میں مٹی کی قبر کے پاس کھڑی ہوں جس کے کناروں پر سیمنٹ کا فریم بنا دیا گیا ہے۔ سنگ مر مر کے سفید کتبے پر میری ماں کا نام لکھا ہے۔ اس پر مٹی پڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاتھ میں تازہ گلاب کی پتیاں ہیں ۔ہم ان پتیوں کو اس سال خوردہ قبر پر ڈالنے لگتے ہیں۔گلاب کی پتیوں سے خوشبو کا ایک خفیف سا جھونکا نکل کر فضا میں پھیل جاتا ہے۔اس خوشبو میں جدائی کے کتنے ہی سالوں کے مہک شامل ہے۔اس ان کہے درد کی کہانی ہے جو کسی سے کہا نہیں گیا ،زندگی تو چلتی رہی تھی اور سب کچھ وقت پر ہوتا بھی رہا لیکن سچ یہ ہے کہ ماں کے جانے کے بعد زندگی ویسی نہیں رہتی۔ ابو جان ایک ڈھب کھڑب سی جگہ اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے پلاسٹک کے لفافے سے گلاب کی پتیاں نکال کر ایک ناقابل فراموش رفاقت کی یاد کے اس ڈھیر پر ڈال رہے ہیں جس کی آنچ آج بھی دل میں لو دیتی ہے۔کئی برس پیشتر یہی دن تھے جب امی جان عارضی دنیا کے پر رونق گھر کو چھوڑ کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گئی تھیں۔ اپنے آبائی شہر سے ان کی غیر معمولی وابستگی ہی تھی کہ ان کا وجود اسی شہر میں پیوند خاک ہوا۔ایک اور منظر یاد آتا ہے۔جست کی پیٹی پر رکھے ہوئے صندوق اور اٹیچی کیسوں میں ایک صندوق امی جان کی خاص چیزوں سے بھرا تھا۔ اس صندوق میں امی نے اپنے استری شدہ قیمتی کپڑے بڑے سلیقے سے رکھے ہوتے تھے۔ ایک کونے میں گردش زمانہ سے بچے کھچے زیورات کی مخملیں پوٹلی بھی رکھی ہوتی۔کچھ بلیک اینڈ وائٹ تصویریں بھی اسی کی ایک کونے میں رکھی ہوتی تھیں۔ اسی میں وہ چار خانی تہبند پڑی ہوتی۔ ہم حیرت سے پوچھتے کہ امی جان یہ کیا ہے۔ آپ نے اسے کیوں سنبھالا ہوا ہے؟ تو امی جان کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو جھلکنے لگتے۔ وہ سال خوردہ کپڑے کو اپنے چہرے کے قریب کر کے اس کی مہک اپنے اندر اتارتیں اور کہتیں یہ میرے اباجی کی تہمند ہے۔ہم جن عمروں کے رتھ پہ سوار تھے ان عمروں میں یہ باتیں سمجھ ہی کہاں آتی ہیں سو ہمارے انجان اور بے فکر دلوں میں ایک حیرت سی امڈ آتی ۔یہ شموس کریب اور کم خواب کے کپڑے تو قیمتی نظر آتے ہیں، زیورات کی یہ پوٹلی بھی قیمتی ہے مگر یہ پرانی قدرے بوسیدہ تہمند ہمیں کسی بھی طور قیمتی دکھائی نہ دیتی۔پھر وقت نے بہت کچھ سکھا دیا زندگی کے اوبڑ کھابڑ راستوں پر چلتے ہوئے امی جان کو کھو دیا تو جانا کہ محبت اور یاد کے جہان میں پرانی اور بوسیدہ چیزیں غیر مرئی یادوں سے جڑ کر کیسے انمول ہوجاتی ہیں۔ اب جب میں اپنی الماری کھولتی ہوں تو اس میں امی جان کے ہاتھ کا بنا ہوا کریم کلر کا سویٹر ان کے دوپٹے ، ایک ریشمی شلوار قمیص اور ان کا ایک پرانے فیشن کا پرس پڑا ہے۔ شاید میرا بیٹا بھی کسی روز مجھ سے پوچھے کہ یہ پرانی طرز کا سلا ہوا شلوار قمیص، یہ ہاتھ کا بنا ہوا سویٹر آپ نے اتنا کیوں سنبھال کر رکھا ہے۔میں جب اسے جواب دوں گی کہ یہ میری امی جان کا ہے تو وہ اسی حیرت سے میری طرف دیکھے گا جیسے کبھی میں اپنی ماں کے جواب پر حیرت زدہ ہوجاتی تھی۔۔!