گزشتہ پانچ سال سے اس قوم کو ڈرایا جا رہا تھا کہ ہم ’’فیٹف‘‘ کی گرے لسٹ میں آ چکے ہیں اور اگر ہم نے مغربی دنیا کے مطالبات کے مطابق خود کو نہ ڈھالا تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے، اس لئے ہمیں فوراً ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ہم اس گرے لسٹ کی پابندیوں سے باہر نکل آئیں۔ اس قدر شور مچانے والے حکمرانوں نے عوام کو کبھی یہ نہیں بتایا کہ گرے لسٹ میں جانے سے اس قوم کو کیا نقصانات ہوئے ہیں اور اگر ہم آج اس لسٹ سے باہر نکل آئے ہیں تو پھر بھی خوشی کے شادیانے بجانے والے یہ حکمران ہمیں نہیں بتا رہے کہ اس کے بعد ہمیں کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت تقریباً 19 ممالک گرے لسٹ میں شامل ہیں جن میں ترکی اور متحدہ عرب امارات جیسی مضبوط معیشتوں والے ممالک بھی ہیں۔ کیا ان دونوں ملکوں کی معیشتوں، معاشرتوں اور سیاسی زندگی میں ذرا سا بھی فرق پڑا۔ ترکی کی معیشت بگڑی تو اس کی وجہ ’’فیٹف‘‘ نہیں تھی بلکہ عالمی معاملات میں امریکی بالادستی اور سینہ زوری تھی۔ لیکن میرے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت دنوں نے مل کر بائیس کروڑ عوام کو مسلسل ذہنی و نفسیاتی طور پر یرغمال بنائے رکھا۔ ان بزدل حکمرانوں نے ہر وقت ’’فیٹف‘‘ کے مطالبات کی فہرست پکڑی ہوتی تھی اور یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے کہ ’’ہم اپنا گھر ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ جون 2018ء کی 28 تاریخ کو ہم اس گرے لسٹ میں آئے اور حکومت کو یہ بہانہ مل گیا کہ کیسے اور کس طرح عوام کو ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے اور انہیں معاشی بدحالی کا ڈرائونا خواب دکھا کر ان پر اپنے ایسے قوانین نافذ کئے جا سکتے ہیں جن کے تحت انہیں کنٹرول کیا جا سکے۔ جیسے ہی اہل اقتدار کے ہاتھ میں ’’فیٹف‘‘ مطالبات کی لسٹ آئی، انہوں نے 8 مارچ 2019ء کو پہلے سے کالعدم تنظیموں کو زبانی نشانہ بناتے ہوئے انہیں گرے لسٹ سے نکلنے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ (High Risk) قرار دیدیا۔ ایف بی آر، کسٹم، سٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اپنے اپنے ہتھیار تیز کئے اور لوگوں کی ذاتی زندگی اور معاشی سرگرمیوں پر نگرانی سخت کر دی۔ پارلیمنٹ کے جائنٹ سیشن میں جس طرح لاتعداد بل منظور کئے گئے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج پی ڈی ایم کی جماعتیں جو کریڈٹ لے رہی ہیں وہ اس قانون سازی کے خلاف بائیکاٹ کر رہی تھیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد ی کیلئے فنڈنگ کبھی براہِ راست چینل مثلاً بینک وغیرہ سے نہیں ہوتی۔ لیکن ’’فیٹف‘‘ سے ڈرا کر تمام کے تمام قوانین ہی بینکاری سے متعلق بنائے گئے جن کا مقصد کاروباری اور صنعتی لوگوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ مدتوں پاکستان کا عالمی سطح پر ایک ہی موقف تھا کہ ہمارا ممبئی دھماکوں سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور لشکر طیبہ ایک ایسی رفاحی تنظیم ہے جو کشمیری مہاجرین اور مجاہدین کی مدد کرتی ہے لیکن ہم نے 8 جون 2021ء کو ضیاء الرحمن لکھوی کو پانچ سال سزا سنا دی۔ بینکوں، پراپرٹی ڈیلروں یہاں تک سنّاروں تک کو کہا گیا کہ کھاتے داروں اور خریداروں کی معلومات فراہم کریں۔ نیب میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک سیل قائم کیا گیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اکتوبر 2021ء کو ’’فیٹف‘‘ کی میٹنگ میں ہم کو گرے لسٹ میں ہی شامل رکھا گیا۔ اسکے بعد ہم سے اور کچھ کر کے دکھانا مطلوب تھا۔ اپریل کے آغاز میں عمران خان کی حکومت کو ’’رجیم چینج‘‘ پالیسی کے تحت ہٹانے کے منصوبے کا آغاز ہو گیا تھا۔ بھارت کی نظروں میں ایک ہی نام کھٹکتا تھا اور وہ تھا حافظ سعید۔ اپریل کی 8 تاریخ کو اسے 33 سال کی سزا سنا دی گئی اور نو اپریل کو عمران خان کی حکومت بھی رخصت کر دی گئی۔ اب خوشخبریوں کا آغاز ہوا۔ ’’فیٹف‘‘ کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں اور پاکستان گرے لسٹ سے باہر آ گیا۔ نقصانات بتانے والے آج تک اسکے نقصانات نہیں بتا سکے اور فوائد بتانے والوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ اس لئے کہ ’’فیٹف‘‘ ایک ایسا ادارہ جس کا کام صرف دنیا بھر کے ممالک پر نظر رکھنا ہے کہ وہاں سے کسی دہشتگردی کیلئے منی لانڈرنگ تو نہیں ہو رہی۔ یہ تنظیم دنیا کے کسی بھی ملک کو پابند کرنے کا ایسا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتی کہ وہ گرے لسٹ والوں سے معاشی تعلق توڑ دیں۔ ہر ملک آزادانہ طور پر اپنا فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں تھا اور ’’کرونا‘‘ آ گیا۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل صنعت بند ہوئی تو یورپی یونین کے ممالک کو پاکستانی مصنوعات کی ضرورت آن پڑی۔ پاکستان سے ٹیکسٹائل کی جتنی برآمد اس دوران ہوئی جب یہ گرے لسٹ میں تھا اتنی باقی ستر سالوں میں بھی نہیں ہوئی جب ہم ’’وائٹ‘‘ تھے۔ آج ہم ’’فیٹف‘‘ کی گرے لسٹ سے نکل آنے پر خوشیاں منا رہے ہیں جبکہ اس وقت عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کو ناقابلِ بھروسہ ملک قرار دے دیا ہے کیونکہ یہ اس قابل نہیں رہا کہ یہاں کوئی سرمایہ کاری کی جائے، خطرہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے تین بڑی تنظیموں کی آراء کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ انکی ریٹنگ کے مطابق جو ملک بہتر ہوتا ہے وہ اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ان تنظیموں میں سے ایک فیچ (Fitch) ہے، دوسری موڈیز (Mody's) اور تیسری سٹینڈرڈ اینڈ پوئرز (Standard & Poor's S&P) ہے۔ یہ تینوں وقتاً فوقتاً اپنی کریڈٹ ’’ریٹنگ‘‘ جاری کرتی ہیں جن کی بنیاد پر سرمایہ کار اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ دراصل کسی بھی ملک کی صنعتی، معدنیاتی اور زرعی پیداوار، اس کی برآمدات اور اس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کیساتھ ساتھ خاص طور پر اس ملک میں سیاسی استحکام جیسے عوامل کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ان تنظیموں میں سے سب سے پہلے 7 اکتوبر کو موڈیز نے پاکستان کو اپنی ریٹنگ میں B3 سے گرا کر Caa1 کر دیا۔ یہ کسی بھی ملک کی معیشت کی بدترین سطح ہوتی ہے، یعنی اب یہ معیشت قریب مستقبل میں سنبھل نہیں سکتی۔ اس لئے موڈیز نے ہمیں اپنی کاٹھ کباڑ والی لسٹ (Junk List) میں شامل کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ فی الحال ہم پاکستان کی ریٹنگ نہیں دینگے۔ گزشتہ جمعہ یعنی 21 اکتوبر کو Fitch نے بھی اپنی ریٹنگ میں پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے ناقابل یقین ملک قرار دیدیا۔ اس کے مطابق پاکستان پر بین الاقوامی قرضوں کی جی ڈی پی کے مقابلے میں شرح 73 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ عالمی سرمایہ کاروں نے پاکستانی بانڈ خرید کر جو سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس پر منافع ادائیگی 21 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جو عمران خان کے دور میں اگست 2021ء کو 20 ارب ڈالر تھے اب صرف 7.6 ارب ڈالر رہ گئے۔ ان سے بمشکل صرف ایک ماہ کے قرضوں کی قسط کی ادائیگی اور پٹرول کی قیمت دی جا سکے گی۔ اسکے بعد کیا ہو گا، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے پانچ بڑے بینکوں کو بھی ناقابل بھروسہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس دوران ہوا ہے جب اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی خوشخبری لینے امریکہ گئے ہوئے تھے اور شہباز شریف پاکستان کی فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو فتح قرار دے رہا تھا۔ دنیا بھر میں ہماری معاشی بربادیوں اور دیوالیہ پن کے چرچے ہیں۔ دنیا بھر کے معاشی تجزیہ نگار اور ماہر جب کبھی غریب ممالک کی تباہی کی وجوہات بیان کرتے ہیں تو ایک وجہ ضرور لکھتے ہیں کہ یہ وہ بدقسمت ملک تھے جن پر ایسے حکمران مسلّط ہو گئے تھے جنکا اثاثوں اور اولاد سمیت کچھ بھی اس ملک میں نہیں تھا۔ وہ صرف اپنے ملک میں ایک بریف کیس لیکر آتے تھے اور حکومت کرنے کے بعد اپنا بریف کیس اُٹھاتے اور واپس بھاگ جاتے۔ ایسے رہنمائوں کو اپنے ملک کے اُجڑنے یا آباد ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔انکا تو سارا مفاد ہی ملک سے باہر کسی دوسرے ملک سے وابستہ ہوتا ہے۔