ہر برے کام کا آغاز نہ سہی،انجام تو رسوائی ہی رسوائی ہے ۔روس اور یوکرین جنگ تھمنے کے بعد، جب جمع تفریق کریں گے تب پتہ چلے گا، پلوں تلے کتنا پانی بہہ چکا۔ سپر پاور امریکہ کو افغانستان میں ناک سے لکیریںنکالنا پڑیں۔روس کا تو شیرازہ بکھر گیا تھا،برطانیہ کے حشر سے بھی ہر کوئی واقف ۔اس وقت روس اور یوکرین پردنیا کی نظریں جمعی ہوئیں مگرنیٹو اور امریکی موقف پر سبھی حیران۔جی ہاں ششدر۔ 1971میں بھی بحری بیڑہ سمندر میں ہی مٹر گشت کرتا رہا ۔اب تو جھنڈی دکھا دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے،اگر یوکرین ایٹمی اسلحہ تلف نہ کرتا تو کیا روس ایسی جارحیت کر پاتا،کبھی نہیں۔آج یورپ اور امریکہ پوٹن کی ایک دھمکی پرسہم گئے۔یوکرینی ایٹمی دھمکی پر روس بھی دبک جاتا ۔ایٹمی پاکستان کے مخالفین ، فاعتبرو یا اولی الابصار۔ روس اور یوکرین یورپ کے دو بڑے ملک ہیں۔ روس 17 ملین مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ، یوکرین سے 28 گنا بڑا ۔روس کی14.4کروڑ ، یوکرین کی 44 ملین آبادی ۔ روس کے پاس سب سے زیادہ گیس کے ذخائر48,938 بلین کیوبک میٹر۔ روس یورپی ممالک کو درکار قدرتی گیس کا ایک تہائی فراہم کرتا ہے۔اگر وہ گیس کی سپلائی بند کر دے تو یورپی باشندے سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جائیں ۔ دوسری طرف امریکہ کی لاٹری نکل آئی۔ روس پر پابندیوں کی صورت میں یورپ کو من پسند قیمت پر گیس فراہمی کا موقع ۔ یوکرین کو اسلحہ کی فروخت ۔آخرافغان جنگ کا خسارہ کہیں سے پورا تو کرنا ہے ۔ دنیا کے تیل کے کل ذخائر کا 5 فیصدروس کے پاس۔امریکہ تیل کی کمی پوری کرنے کے لیے بھی تیار۔ 1949 ء میں نیٹو اتحاد قائم ہوا۔شروع میں 12 ممالک تھے۔ اب یہ 30 ممالک کی مضبوط تنظیم بن چکی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے، یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کا متمنی کیوں؟درحقیقت نیٹو کے قیام کا مقصد سبھی ممالک کی سلامتی تھی ،اس کے رکن ممالک کا مقصد یہ تھا، اگر کوئی بیرونی ملک تنظیم کے کسی رکن ملک پر حملہ کرے گا، تو سبھی مل کر لڑیں گے۔ واضع پیغام تھا، اگر کوئی ملک نیٹو کے رکن ممالک پر حملہ کرتا ہے، تو وہ حملہ امریکہ پر تصور ہوگا۔ یوکرین نے محسوس کیا، اگر ہم اب بیدار نہ ہوئے، تو روس مکمل طور پر قبضہ کر لے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے یوکرین نے نیٹو کے ساتھ ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔ یوکرین کو یقین تھا، اگر وہ نیٹو کا رکن بن گیا ،تو روس کبھی بھی اس پر حملہ نہیں کر سکے گا کیونکہ نیٹو پر حملہ کرنے کا مطلب امریکہ پر حملہ ہے۔ روس ایک طرف یوکرین کو نیٹو سے دور رکھنا چاہتا ہے، تاکہ وہ مستقبل میں کبھی اس کے خلاف کھڑا ہونے کی طاقت جمع نہ کر سکے۔ دوسری جانب یوکرین کی سرحد پر کشیدگی پیدا کرکے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کا خاتمہ بھی پیش نظر۔ 1997ء میں یوکرین،نیٹو کمیشن بنا، تاکہ یوکرین نیٹو تنظیم کا شراکت دار بن سکے۔ 2008ء میں یوکرین نے کھلے عام کہا: وہ بھی نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے۔ اس دوران یوکرین کو نیٹو کی جانب سے پیغام ملا: وہ رکنیت کے لیے تیاری کرے۔ سال 2017 ء میں یوکرین کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا ۔جس میں کہا گیا تھا: نیٹو کی رکنیت حاصل کرنا یوکرین کی خارجہ پالیسی کا ایک بڑا مقصد ہے۔ نیٹو کے سربراہ اور یوکرینی صدر نے دسمبر 2021ء میں ملاقات کی ۔ نیٹو کے حوالے سے یوکرین کی فعالیت دیکھ کر روس نے سرحد پر اپنی فوجیں تعینات کرنا شروع کیں۔ اس وقت یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد فوجی، جنگی جہاز، ٹینک، گولہ بارود اور بہت سے جدید ترین ہتھیار موجود ہیں۔یوکرین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ۔امریکہ اور نیٹو ممالک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے۔یوکرین پچھلے آٹھ برسوں سے ملک کے مشرقی حصوں میں روس کے حمایت یافتہ جنگجووؤں سے لڑ رہا مگر اب پورے ملک کی بقا کو خطرہ لاحق ۔ روس کے پاس دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ایک ۔ دفاع پر خرچ کرنے والے ٹاپ 5 ممالک میں شامل۔ 2020 میں روس نے فوج پر 61.7 بلین ڈالر خرچ کیے، جو کل حکومتی اخراجات کا 11.4 فیصد بنتا۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق: یوکرین اپنی فوج پر 5.9 بلین ڈالرخرچ کرتاہے،جوحکومتی اخراجات کا 8.8 فیصد ۔ روس کے پاس جدید ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ موجود، جس کا یوکرین کے پاس جواب نہیں ۔روسی افواج موبائل راکٹ لانچرز اور ایئر ڈیفنس کے ہمراہ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا تجربہ رکھتی ہیں، ان کے پاس کریمیا اور شام کی جنگ کاوسیع تجربہ موجود ۔جس کا عملی مظاہرہ دوسری عالمی جنگ کے دوران سٹالن گراڈ اور حالیہ برسوں میں عراقی شہر موصل میں دیکھا جا چکا ۔ عظیم دانشور نے کہا تھا : دنیا میں اثرورسوخ ایک سرمایہ ہے ،جسے احتیاط سے سنبھالنا پڑتا ہے ،کہ کہیں غائب نہ ہو جائے۔دنیا بھر میں صرف چین اس پر عمل پیرا ہے۔برطانیہ اورروس کے بعد امریکہ بھی مزا چکھ چکا۔یوکرینی صدر ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں مگر کب تک ؟یقینی طور پر وہ گلشنِ شجاعت کے فرد ہیں مگر ٹڈی دَل کی طرح پھیلے دشمن کو شہروں سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اگر جنگ طویل ہوتی ،جس کے سوفیصد امکانات موجود ،امریکہ بہادر کا بھی اسی میں فائدہ ہے۔تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ازکم 125ڈالر تک پہنچ جائیں گی ۔ایسے میںپاکستان میں مہنگائی کا جادو بھی سرچڑھ کر بولے گا۔عوام کو بے وقوف بنانے والے سیاستدانوں میں سے کون ،مہنگائی کنٹرول کرے گا؟تب انھیں غلطی کا احساس ہو گا،جب عمران ایک غضب ناک شیر کی طرح ،شہر شہر، قریہ قریہ ،بستی بستی ،نئی صف بندی کر ے گا۔اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اپوزیشن کی حالیہ بھاگ دوڑ جمہوریت کو گھر بھیجنے والاآخری دھکا ثابت ہو،کیونکہ اپوزیشن اس شخص کو مزید برداشت نہیں کرے گی ،جو ہر ایک کے لیے خطرہ بن چکا۔جواباَ وہ بھی اپوزیشن کو ایک لمحے کیلیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔