2013ء ختم ہورہا تھا۔میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور سنٹرپر ایک نیا پروگرام شروع کر رہا تھا۔فارمیٹ پر مرحوم افتخار مجاز صاحب کے ساتھ ڈسکشن چل رہی تھی۔پروڈیوسر کا نام علی حسن تھا۔اس کی آواز اور لہجہ اتنا نیا تھا کہ میں حیران ہو کر مُسکرا دیتا۔کبھی ڈرامہ لکھا تو کسی کردار سے اُس کا لہجہ ضرور کاپی کروائوں گا۔طے پایا کہ کسی ایک موضوع کو لے کر میں اُس پر بات کروں گا۔پھر اِسی شعبے کی مختلف شخصیات کی آرا کو ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے مکس کر کے پروگرام تیار کریں گے۔کتاب سے روحانیت تک اور فلم سے لے کر ادب اور ثقافت پر غیر سیاسی پروگرام ہوتے رہے۔بس ایک مسئلہ تھا کہ مجھے ایڈیٹنگ کی شفٹ میں خود بیٹھنا پڑتا تھا۔ریسرچر بس نام کا ہوتا ہے۔۔۔پروگرام خود لکھنا ہوتا تھا۔ ایسے میں ریڈیو پروڈیوسر کی ٹریننگ بہت کام آئی۔آواز کا اُتار چڑھائو، مائیک کا استعمال،بیک گرائونڈ میوزک اور گفتگو کو کہاں پر کٹ لگا نا ہے۔مگر مجھے ان سب کاموں میں اتنا لطف آتا کہ نہ وقت گزرنے کا احساس ہوتا نہ تھکن کا۔اداکار حبیب،فلم سٹار اعجاز،منو بھائی،اسلم ڈار، الطاف حسین ،بابا یحییٰ ،سرفراز شاہ صاحب،بانو قدسیہ ،افتخار ٹھاکر،امان اللہ اور پروفیسر عبداللہ بھٹی وہ چند نام ہیں جو یاد رہے۔ہیر رانجھا کی ہیر فردوس بیگم سے استفسار اور بہت سی آف دی ریکارڈ گفتگو ذہن پر دستک دیتی رہتی ہے۔سچ پوچھیں تو فلم اور روحانیت،فلم والے اور روحانی بابے میری اولین محبتیں تھیں۔روحانیت پر ایک پروگرام کا انٹرو دینا تھا کسی مزار پر۔اپنی ٹیم اور پروڈیوسر کے ساتھ میانی صاحب قبرستان پہنچا۔ بہت سے مزاروں کا جائزہ لیا۔واصف علی واصف صاحب،غازی علم دین شہید ،طاہر بندگی، یعقوب علی شاہ کے مزاروں کا جائزہ لیا۔ ماضی کی ایک شخصیت علی حسن عرف سادات پریس والوں کی قبر مِل گئی یونہی پھرتے پھرتے۔وہاں بھی فاتحہ پڑھی۔علی حسن صاحب پٹیالہ سے لاہور آئے تھے۔صاحبِ کرامت تھے۔AGآفس کے پاس ہی میکلیگن روڈ ہے۔وہاں پر ایک پریس ہوا کرتا تھا ۔غالباً ایک پیپل کا درخت بھی تھا۔درخت کے نیچے ایک تھڑا تھا۔اس کے بعد سادات پریس والے شاہ جی ایک کمرے میں بیٹھے ہوتے تھے۔سائلین اپنی اپنی کتھا سُناتے اور شاہ جی انہیں اپنے سامنے لکڑی کے چوکھٹے میں بنے ہوئے خانوں میں سے کوئی سونف،ملٹھی یا کچھ اور پُڑی میں بند کر کے تھما دیتے۔اگر کسی کا مسئلہ زیادہ شدید ہوتا تو شاہ جی اُس کے لباس کا کوئی حصہ مانگ لیتے اور اگلے دن اُسے بتاتے کہ معاملہ یہ ہے اور اس طرح حل ہو گا۔1981ء میں میرے پھیپھڑوں میں پانی پڑ گیا۔ڈاکٹروں نے جو کہا اُس نے ڈیپریشن طاری کر دیا۔میری جسمانی حالت یہ تھی کہ ایک قدم چلتا تو سانس اُکھڑ جاتا اور جسم جواب دے جاتا۔والد صاحب نے مسقط سے فون کر کے کہا کہ اِسے سادات پریس والوں کے پاس لے جائو۔ایک ہفتے میںکیسے نارمل ہوا یہ ذراتفصیلی بات ہے۔بات ہو رہی تھی مزاروں کی۔بابا جی واصف صاحب کہا کرتے ہیں کہ مزارات پرTelexمشینیں لگی ہوتی ہیں۔پیغام آ بھی رہے ہوتے ہیں اور جا بھی رہے ہوتے ہیں۔کیمرے کے نقطۂ نظر سے مزار دیکھتا جا رہا تھا۔غازی علم دین شہید کے مزار کا تجربہ بڑا منفرد اور انوکھا تھا۔یعقوب علی شاہ کے مزار کی کیفیت بالکل اور تھی۔یاد رہے کہ یعقوب علی شاہ عصرِ حاضر کی ایک روحانی شخصیت سرفراز علی شاہ صاحب کے استاد ہیں۔ممتاز مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ یعقوب شاہ صاحب کے پاس جِنات تھے۔یعقوب شاہ صاحب کرشن نگر میں 6x6کی ایک دکان میں بیٹھا کرتے تھے۔سرفراز شاہ صاحب آنے والوں کے لیے چائے بھی بناتے اور برتن بھی دھوتے تھے۔سرفراز شاہ صاحب سے میری جتنی ملاقاتیں ہوئیں۔۔۔مجھے اُن کے پاس کشف ہونے کا احساس ہوا۔اُن کے اور پروفیسرعبداللہ بھٹی کے ساتھ ایک منفرد پرگرام کیا۔مرکزی خیال یہ تھاکہ لوحِ محفوظ کیا ہے؟دُعا کی کیا حیثیت اور اہمیت ہے؟غیب کیا ہے؟ انسان کتنا بے بس ہے؟خیال کہاں سے آ تاہے اور عمل اور نتیجہ کا کیا رشتہ ہے؟ پی ٹی وی ہی کے دنوں کی بات ہے کہ بانو قدسیہ کا انٹر ویو کیا۔یہ بانو آپا کی زندگی کے آخری ایام تھے۔اُن کی طبیعت اچھی نہ تھی۔اُن کے گھر داستان سرائے میں اُن سے آن کیمرہ اور آف کیمرہ بڑی سیر حاصل گفتگو رہی۔بتانے لگیں جن دنوں میں اپنا ناول راجہ گدھ لکھ رہی تھی تو سڑک پر واک کرتے ہوئے ایک غیر ملکی نوجوان میرے پاس سے گزرا اور کہنے لگا۔۔راجہ گدھ۔۔راجہ گدھ۔ میں نے پوچھا۔۔ممتاز مفتی،قدرت اللہ شہاب، واصف علی واصف اور بابا جی اشفاق احمد پر اپنے خیالات سے نوازیں۔ بانو آپا نے اشفاق صاحب پر تو تفصیل سے گفتگو کی مگر باقی ناموں پر بات کرنے سے گریز کیا۔ فلسفہ، روحانیت، مادیت، خیر، شر، تقدیر، تدبیر اور دُعا پر اتنی لطیف اور عمیق گفتگو سُنی کہ اپنی سماعت پر رشک ہونے لگا۔پروفیسرعبداللہ بھٹی روحانی عامل ہیں۔وہ جب بھی پی ٹی وی آتے ہیں اُنکے گرد ایک رش لگ جاتا ہے۔ہر کوئی انہیں کچھ نہ کچھ جاننے کے لئے گھیر لیتا ہے۔اُن سے ون ٹو ون ملاقاتوں میں دست شناسی،جفر،ستاروں کا علم، عملیات، وظائف۔ حروف مقطعات اور قُرآنی آیات کے علمِ ریاضی سے تعلق پر بڑی معلوماتی گفتگو رہی۔ نجم شاہ صاحب شہرت اور ہجوم سے گریزاں رہتے ہیں۔مگر پھر بھی لوگ ایک دوسرے سے سُن کر اُن تک پہنچ جاتے ہیں۔اُن سے UnseenاورUnknownپر لمبی لمبی بات ہوتی ہے۔کبھی کبھی نہ جانے کیسے پاور پلیئرز بھی اُن تک پہنچ جاتے ہیں۔چوہدری پرویز الٰہی ،جسٹس افتخار چوہدری،بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور کچھ ایسے جن کا ذکر بھی ممکن نہیں۔جہانگیر بدر مرحوم۔۔۔شاہ جی کے پنجاب یونیورسٹی کے کلاس فیلو تھے۔اس لیے وہ جب دونوں اکھٹے ہوتے تو شاہ صاحب کے چہرے پر ایک مستقل مسکراہٹ رہتی۔پولیس کے ایک اعلیٰ افسر شاہ جی کے پاس بہت آتے تھے۔اب وہ اس دنیا میں نہیں۔SPصاحب نے لبرٹی میں ایک طاقتور ترین شخصیت کے گھر والوں کی گاڑی کالے شیشوں کی وجہ سے روک لی۔SPصاحب پر اتنا دبائو بڑھا کہ حواس باختہ ہو گئے۔نجم شاہ صاحب نے اُس کے لیے کیا دُعا کی اور بات کیسے ختم ہوئی یہ کہانی پھر کبھی۔