صوبہ پنجاب کا بجٹ آچکا ہے۔بجٹ میں وہ سب کچھ ہے جو ایک منتخب حکومت کرتی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ نگران حکومت صرف حکومت کے روز مرہ کے کام دیکھتی ہے۔ وہ دیرپا اقدامات سے گریز کرتی ہے اور ایسے فیصلے نہیں کرتی جس سے پالیسی سازی کا گمان ہو۔ مگر پنجاب حکومت کابجٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ صورتحال بالکل نہیں ہے۔ حکومت نے کچھ پرانے ٹیکس ختم کئے ہیں۔صحافیوں کے لئے کافی مراعات کا اعلان کیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ بڑی بھاری مقدار میں رکھے گئے اور بجٹ کا 40سے پچاس فی صد پہلے چار ماہ میں خرچ ہوگا۔یعنی جولائی اگست ستمبر اور اکتوبر میں بجٹ کا زیادہ تر حصہ صرف ہو جائے گا۔اس بجٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سال الیکشن کا سال ہے۔ سارا بجٹ اس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور نگران وزیر اعلی پاکستان مسلم لیگ نواز کے افتتاحی بلے باز ثابت ہو رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی ابھی تک پریس کانفرنس سے بچے ہوئے ہیں۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چوہدری شجاعت کے کردار کو پنجاب کی سیاست سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحال پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز ا پنے پرانے سٹائل کے ساتھ موجود ہے وہ عوام کو ترقی دینے کا نعرہ بلند کر سکتی ہے مگر اس وقت ترقی سے زیادہ اہم مہنگائی کا اثر ہے ۔عوام صرف روٹی کے چکر میں ہیں۔ ایک الیکٹرانس کے دکاندار سے بات ہوئی کہ کاروبار کیسا جارہا ہے اس کا کہنا تھا۔بہت مندا ہے ،وجہ پوچھی تو پتہ چلا فریج اور اے سی کی قیمت اتنی اوپر چلی گئی ہے کہ گاہک بہت کم ہے۔لوگ پرانی چیزوں سے کام چلا رہے ہیں۔ اب تو صورتحال یہاں تک آگئی ہے کہ لوگ چائے پینے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ چائے کے کھوکھا وہ جگہ ہے جو پاکستان میں ترقی کا انڈکس ہے۔ اگر چائے کے کھوکھے پر رونق ہے تو مطلب ہے مزدور کا کام مل رہا ہے چائے کے کھوکھے پر ویرانی بتاتی ہے کہ مزدور بے روزگار ہے دکاندار کا کاروبار ٹھپ ہے۔ ا ب اس چیلنج سے پاکستان مسلم لیگ نواز کیسے نکلتی ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔ اب لوگ انقلاب کی بات نہیں کرتے وہ بجلی کے بل کی بات کرتے ہیں۔ وہ گھی، آٹا اور چینی کی بات کرتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں کافی بہتر حالت میں ہے۔ جہانگیر ترین کی استحکام پارٹی بھی جنوبی پنجاب میں کافی اثر رکھتی ہے اپنے مضبوط امیدواروں کی شکل میں۔ پاکستان تحریک انصاف الیکشن میں کس کی زیر قیادت ہوگی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔عمران خان کا سیاسی مستقبل ابھی واضح نہیں ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین آج بھی پنجاب میں سب سے مقبول لیڈر ہیں مگر وہ قبول لیڈر نہیں ہیں ۔اس وقت ملک کی سیاست کے دو بڑے دبئی میں ہیں۔ پاکستان سیاست کے اہم فیصلے اب دبئی میں ہونگے۔ الیکشن کب ہوگا ابھی کسی کو پتہ نہیں۔ 2023میں صدر عارف علوی فارغ ہو جائیں گے۔ عمر عطا بندیا ل پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں ہونگے انگی جگہ قاضی فائز عیسی چیف جسٹس اف پاکستان ہونگے۔پاکستان کے آرمی چیف بدل چکے ہیں مگر الیکشن جو 2023میںآئین کی رو سے ہونا ضروری ہے اسکے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔الیکشن اس سال نومبر میں ہونگے یا فروری 2024میں، اسکے بارے میں پاکستان میں صرف ایک شخص جانتا ہے۔ اسکی مرضی کے بغیر نواز، زرداری ملاقاتیں بے معنی ہیں۔ پاکستان کے طاقتور حلقے جب چاہیں گے پاکستان میں الیکشن ہو جائیں گے۔ عوام کو زیادہ سوچ وبچار کی ضرورت نہیں ہے اورنہ الیکشن پاکستان سے عوام کے مسائل کا حل ہیں۔ اگر الیکشن سے عوام کے مسائل حل ہوتے تو 1988سے اب تک 8الیکشن ہو چکے ہیں۔ مگر عوام کے مسائل ہر الیکشن کے بعد مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت ایک بہت مشکل سوال عوام کے سامنے ہے۔ پی ڈی ایم پلس استحکام پارٹی یہ الیکشن کس کے خلاف لڑنے والے ہیں۔ اس وقت یوں لگتا ہے جیسے سب سیاسی پارٹیاں ایک ہی ٹیم کی طرف سے کھیل رہے ہیں۔مخالف ٹیم کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان فوجی عدالتوں کے چکر میں پھنسا ہوا ہے اور دوسری طرف مودی امریکہ کے دورے پر ہے۔ یہ بہت اہم دورہ ہے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اکانومی ہے اور انڈیا دنیا کی دوسری سب سے بڑی منڈی۔اس دورہ کے نتائج اس خطے پر بڑے دور رس ہونگے۔ اس دورے کے پاکستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ انڈین وزیر اعظم امریکی صدر کو پاکستان کے خلاف کس حد تک استعمال کر سکتے ہیں اس کا پتہ آنے والے دنوں میں چلے گا۔ہم اس وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے پڑوسی کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں پریس کا بڑا رول ہے اور ہمارے ہاں پریس کانفرنس کا۔پاکستان کی معاشی بدحالی اس بار عید پر بھی نظر آرہی ہے بہت کم گہما گہمی ہے۔ آج عید ہے اور قربانی کا رش بہت کم ہے۔ لگتا ہے قوم اپنی قربانی خود دے چکی ہے۔ قوم معاشی خوشحالی کی قربانی دے چکی ہے۔ اپنی آزادیوں کی قربانی دے چکی ہے۔اس وقت عید کی قربانی کہیں بہت دور چلی گئی ہے۔لگتا ہے اس بار الیکشن کی قربانی نہ ہو جائے۔ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن 14مئی سے بہت آگے جاچکے ہیں اب عام الیکشن کا انعقاد بھی نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن کے لئے تیار ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز بھی الیکشن کے لئے تیار ہے اور پاکستان تحریک انصاف کا مطالبہ الیکشن کا ہے آخر وہ کون ہے جو الیکشن کے لئے تیار نہیں ، الیکشن کمیشن یا کوئی اور۔لگتا ہے بارات تیار ہے مگر دولہا غائب ہے۔