جناب چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا منصب سنبھالتے ہی آئین کے تحفظ کا اعادہ کیا ہے ،مگر ہمارا آئین کہاں ہے ۔پچھلے پندرہ ماہ اس پر جو بیتی اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ان چند ماہ میں نظریہ ضرورت کی تلوار سے اسے بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔ راقم آئینی امور کا ماہر تو نہیں مگرجو شعور دیا گیاہے اسے استعمال کرتے ہوئے جب اس دستاویز کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے آئین کی بے بسی پر رونا آتا ہے۔ جی ہاں کمزور لوگ صرف رو سکتے ہیں اور کچھ ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ آئین ہر معاملے میں بے بس نظر آیا ۔ سنا تو یہی ہے کہ کسی ملک کے باسیوں کے لئے اس ملک کا آئین سب سے مقدس دستاویز ہوتی ہے۔آئین کا مقصد اس ملک کے عوام کو ان کا حق قانون کے مطابق دلانا، ان کا تحفظ کرنا، ان کی آزادی پر زد نہ آنے دینا۔ ہمارے آئین کی رو سے ہمیں اس ملک میں اﷲ کی حاکمیت قائم کرنا ہے،مگر جو ہوتا رہا ہے وہ سب تو اﷲکی نافرمانی ہے ۔ ایک شخص کو عدالت رہا کرتی ہے ، مگر کون ہے جو اسے رہا نہیں ہونے دیتا، یہ اﷲکی نہ تو حاکمیت ہے اور نہ ہی اس کی منشا۔یہ عدالتوں کی بھی بے توقیری ہے ۔اﷲکی رضا تولوگوں کو ہر طرح کے استحصال سے نجات دلانااور انہیںبنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔آئین کی مقدس دستاویز میں ہر چیز بڑی واضح لکھی گئی ہے کہ کسی کو اس کے بارے کوئی غلط فہمی نہ رہے۔اس دستاویز میں تبدیلی ممکن ہے مگراسی دستاویز کی شق 239 کے مطابق اس کے لئے ایوان کی کل رکنیت کے کم از کم دو تہائی ووٹ درکار ہوتے ہیں۔پھر صدر مملکت کی منظوری بھی ضروری ہے، مگر یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔پارلیمنٹ میں دس بارہ لوگ موجود ہوتے ہیں اور آئین کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ یہ کھلی چھوٹ تو انہیں کوئی قانون اور کوئی ضابطہ نہیں دیتا۔ مگر ایسا ہوتا رہا ہے اور ا س کا خیال رکھنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے ۔مجھے اعتماد فقط اپنی عدلیہ پر ہے۔ کہیں ہم لٹ تو نہیں گئے۔ عدلیہ کہہ دے کہ سب ٹھیک ہے ہماری تسلی ہو جائے گی اور اگر سب صحیح نہیں تو پھر عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ اس کے بچائو کے لئے کچھ اقدامات کرے۔ اگر کہیں کوئی گڑ بڑ ہے تو گڑبڑ کرنے والوں کو سزا دینا عدلیہ کا فرض ہے۔ یہ دیکھنا کہ واقعی کچھ ہوا ہے یہ بھی عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔میں اور میرے جیسے لوگ جنہیں غلط فہمیاں ہیں عدلیہ ان کو رفع کرے۔ عدلیہ کا ہر لفظ اس قوم کے افراد کے لئے حرف آخر ہو گا۔میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ آئین نے اپنی حفاظت کا خود انتظام کیا ہوا ہے مگر اس پر عملدرآمد کوئی نہیں کر سکتا، اس پر عمل درآمد عدلیہ کے منصب کا تقاضا ہے۔ آئین کا آرٹیکل چھ کہتا ہے۔1۔کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے یا معطل کرے یا التوا میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کرنے کی سازش کرے یا تخریب کر ے یامعطل یا التوا میں رکھے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ 2 ۔کوئی شخص جو شق (1) میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا۔ــ(یا شریک ہو گا)اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ 2۔ (الف) ۔ٰشق (1) یا شق (2) میں درج شدہ سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعے بشمول عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ 3 ۔ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہو۔ جناب چیف جسٹس آپ سے التماس ہے کہ ایک دفعہ آپ کچھ ایسا کر جائیں کہ جو غلط ہے وہ ہر حال میں غلط ہو اور جو صحیح ہے اسے کسی صورت کوئی آنچ نہ آئے۔ آپ سے پہلے جتنے چیف جسٹس اس منصب پر فائز ہوئے ۔ تاریخ میں سب کا نام لکھا ہے مگر بعض کے نام سنہری حروف میں لکھے جائیں گے ۔ تاریخ میں جن کا نام سنہرے حرفوں میں ہے،لوں میں ان کی تعظیم ہے ۔ ان کا نام سن کر آج بھی لوگ احترام سے لوگ سر جھکا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔وہ عظیم لوگ تھے۔لوگوں کی بھلائی کا سوچتے تھے۔اپنے عہدے سے انصاف کرتے تھے۔ حکمرانوں کے دبائو کی پرواہ نہ کرتے اور ٹھیک فیصلے دیتے تھے۔ جناب چیف جسٹس !آپ ایک حساس آدمی ہیں۔ انصاف کی دیر سے فراہمی سے لوگ بڑے پریشان ہیں۔ بعض کیس پہلے دن ہی ختم ہو سکتے ہیں ۔ اگر جج سائل کو خود سن لیں۔ اس کے درد کو محسوس کریں۔ مگر ہمارے جج تاریخوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ انہیں دو چار دنوں میں کیس ختم کرنا پسند ہی نہیں۔ پھر وکیل سادہ سی بات کو قانون کی موشگافیوں میں الجھا دیتے ہیں۔ سائل کی بات جج سن لے تو بہتر حل نکل آتا ہے مگر وکیل کے بغیر کوئی جج سنتا ہی نہیں۔ سائل کی سنیں،اس کا درد محسوس کریں۔ یہ انصاف کا اصل خاصہ ہے۔ ہمیں امید ہیآپ کے عہد میں عدلیہ ایک صحیح ڈگر پر گامزن ہو گی۔