ہمارے معاشرے میں روزبروزبگاڑ پیدا ہوتا جا رہا ہے جو ملک صرف اورصرف اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اُس ملک کے اندر ایسے ایسے دلخراش واقعات جنم لے رہے ہیں کہ جن کو تحریر کرتے ہوئے قلم کانپ اُٹھتا ہے چونکہ مالک تقدیر نے ہمیں قلم کا مزدور بنایا ہے اور ایک بھاری ذمہ داری عطا کر دی ہے تو ہمیں اُس کو مثبت انداز میں عوام کے سامنے لانا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی یلغار نے آج ہر اُس شخص کو’’صحافی ‘‘بنا دیا ہے کہ جس کی زبان قینچی کی طرح چلنا جانتی ہو، معاشرے میں برائیاں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے ہودہ پوسٹیں عام طور پر پڑھنے کو ملتی ہیں ایک جاہل سے جاہل آدمی بھی سوشل میڈیا کے بل بوتے پر ’’علامہ ‘‘ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ہر زبان دراز اور منفی سوچ کے انسان نے اپنے موبائل پر اپنی مرضی سے چینل بنایا ہوا ہے اور اپنی پیٹ پوجا کر رہا ہے حالانکہ صحافت کے لازوال اصول ہیں کہ جب ایک پڑھا لکھا شخص اپنی عملی زندگی میں صحافت کا آغاز کرتا ہے تو سب سے پہلے اُسے منفی ذہانت ترک کرنا ہوتی ہے اور خبر کی دنیا میں تعمیری صحافت کرنا ہوتی ہے جو کہ اب بہت کم ہو چکی ہے۔ صحافت کے اصولوں اور ضابطوں پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن آج کے اِس کالم کے ذریعے میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمن صاحب جو کہ پنجاب بھر کی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں اُن سے کالم کے ابتدا میں اپیل کر رہا ہو کہ خدارا ہماری بچیوں کو اخلاقیات سے عاری بعض یونیورسٹی پروفیسرز سے بچایا جائے ۔ یہ ان مضامین کے پیپروں کی مارکنگ بھی خود کرتے ہیں جو خود پڑھاتے ہیں اور طالبات کو جنسی طور پر ہراساں اور بلیک میل کرتے ہیں اور پھر ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جیسے ہمارے علاقے کی ایک یونیورسٹی میں ہوا۔ ایسا بندوبست ہونا چاہیے کہ یونیورسٹیوں کے پیپرز متعلقہ یونیورسٹی کے پروفیسر چیک نہ کر سکیں بلکہ جس طرح سے تعلیمی بورڈ ز کے پیپرز مقامی بورڈ کی بجائے دوسرے بورڈ میں بھیجے جاتے ہیں اسی طرح سے ایک ہونیورسٹی کے پیپرز کسی دوسری جامعہ کے پروفیسر ز چیک کریں۔ اس اقدام سے طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موبائل اور سوشل میڈیا کے زریعے شرافت کی حدیں پار کی جا رہی ہیںاِس بارے میں والدین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ختم ہو رہا ہے۔ والدین کو آخر کیا مجبوری ہے کہ اپنی بچی کو موبائل لازمی لے کر دینا ہے، موبائل فون نے ہماری زندگی کوبہت حد تک تلخ بنا دیا ہے۔ جب ۹ مئی کے واقعہ کی وجہ سے تین دنوں تک انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی تو یقین جانیے اِس سروس کے بند ہونے سے سب سے مردوں سے زیادہ پریشان خواتین تھیں۔ ڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب کا ایک دور افتادہ ضلع ہے جہاں پر بچیوں میں تعلیم کا رحجان آج سے ۳۰ برس قبل بہت ہی کم تھا لیکن بعد میں جب تعلیم عام ہونے لگی اور دیہاتوں میں بھی سکول اور کالجز بننے لگے تو لڑکیوں میں تعلیم کا رحجان زیادہ ہونے لگا جو ایک خوش آئندہ بات تھی اسی طرح ڈیرہ غازی خان کی بچیاں اعلیٰ تعلیم ایم اے ، ایم ایس سی اور میڈیکل کی تعلیم کے لیے دوسرے شہروں کی یونیورسٹیوں میں داخلے لینے لگیں۔ ہر علاقے کے والدین کی خواہش رہی ہے کہ ان کے علاقہ میں بھی ایک یونیورسٹی ہونی چاہیے تا کہ اُن کی بچیاں دور دراز شہروں کے سفر کی بجائے اپنے ہی علاقے میں تعلیم حاصل کر سکیں اِسی جواب کو عملی جامعہ پہنانے کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس طرح یونیورسٹی بن جانے کے بعد راجن پور ، جام پور ، کوٹ چھٹہ تا شاہ صدر دین ، شادن لُنڈ اور تونسہ کے علاقوں سے بڑی تعداد میں بچیاں یونیورسٹی میں داخلے لینے لگی جو تعلیمی پسماندگی ختم کرنے کے لیے بہت مفید ثابت ہوا لیکن یونیورسٹی کے ماحول کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ اقدامات نہ کئے گئے۔ ایک سابق وائس چانسلر نے اپنی برادری ازم کے نام پرپانچ سالوں تک بڑے گل کھلائے رکھے جس سے سے یقیناً یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔ سابق دور میں اِس قسم کے واقعات دبا یا گیا جس کی وجہ سے یونیورسٹی اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔نتیجہ یہ نکلا کہ دو پروفیسر ز نے اپنی طالبہ کو زیادہ نمبر اور نوکری دینے کی لالچ میں ہراساں کیے رکھا جن کومعطل کر کے اُن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور یہ پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے وگرنہ ماضی میں اِس قسم کے معاملات کو دبا دیا جایا کرتا تھا۔ اگر اُس وقت بر وقت ایکشن لیا جاتا تو آج ایسے بد نما چہروں کو اِس قسم کی زیادتی کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ اُستاد اور شاگرد جیسے مقدس رشتے کو داغ دار کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہو سکتے ایسے بد نما چہروں کو نشان عبرت بنایا جائے تا کہ آئندہ ایسے مقدس اداروں میں اِس قسم کے واقعات جنم نہ لے سکیں۔