ہم کون لوگ ہیں؟ہم کیا بیچتے ہیں؟البرٹ آئن سٹائن جینیئس تھا۔اس کے مطابق۔۔۔حماقت کیا ہوتی ہے؟بار بار ایک ہی طرح کا عمل کرنااور پھر مختلف نتیجے کی توقع رکھنا۔ہمارے ہاں سال کے12مہینے ہی عدم استحکام رہتا ہے۔جب نہیں ہوتا۔۔۔تب بھی ہوتا ہے۔کہیں نہ کہیں ملک کے پریشر کُکر میں تیز یا ہلکی آنچ پر۔پتہ تب چلتا ہے جب سیٹی بجتی ہے یا پریشر کُکر پھٹ جاتا ہے۔صدیق سالک والا پریشر کُکر بھی۔مگر اب کے بار۔۔۔بقول افضل چن"گل ودھ گئی اے"۔کیوں؟ تاریخ کو موقع ملے گا تو وہ اس سیاستدان سے ضرور پوچھے گی"کمزور تھی تو لڑی کیوں "؟ اس وقت سیاست اور سیاستدان تقسیم ہی نہیں،شدید تقسیم ہیں۔عدلیہ تو تقسیم ہے ہی،میڈیا بھی تقسیم ہے اور عوام بھی۔سب سے شدید عوامی تقسیم ہے،سیاسی نقشے پر۔شہباز شریف کسی زمانے میں آصف زرداری کو گریبان پکڑ کر سزا دینے کا نعرہ رندانہ بلند کیا کرتے تھے۔ مگر عمران خان نے تو سیاسی فتووں کی فیکٹری لگا دی۔ہمارا ہر قسم کا Eliteفلم ’’ہم کہاں کے سچے تھے‘‘ کا ہیرو ہے۔ویسے پنچنگ بیگ صرف سیاستدان ہی کو بنایا جا سکتا ہے۔مگر جب ایک سیاستدا ن دوسرے سیاستدان کو بنام سچائی،ستھرائی،ایمانداری اور بے ایمانی گالی نکالے گا تو سیاست مزید گندی اور گدلی ہو جائے گی۔ہم پہلے ہی نفاق،تقسیم اور انتشار میں خود کفیل ہیںاور مزید یہ شدیدسیاسی تقسیم۔ہم پہلے۔ گجر، آرائیں، سیّد،پٹھان اور جٹ ہوتے ہیں ۔ پھر ہم شیعہ،سنی،دیوبندی،بریلوی اور سلفی بھی ہوتے ہیں۔ہم میںسے ہر ایک"سچا "ہے جبکہ دوسرا جھوٹا اور غلط۔سیاسی حمام میں جبکہ تقریباً سبھی ننگے ہوں تو میں حاجی اور تم شیطان والی بات کوئی سیاستدان عوام کو کب تک بیچ سکتا ہے؟ سیاسی انتشار ہمیشہ معاشی زوال کو جنم دیتا ہے۔نہ دیرپا منصوبے بنتے ہیں اور نہ ہی کوئی سنجیدہ سرمایہ کاری ہوتی ہے۔مثال سے بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔سنگا پور میں سیاست پُرامن ہے۔ سیاستدانوں نے ہی مل جل کر اُسے کاروبار کی جنت بنا دیا ہے۔ Botswana 1966ء میں آزاد ہوا۔سیاسی سکون ہے۔تیز ترین اکنامک سپیڈ ہے۔چِلی دنیا کا چھوٹا سا ملک ہے۔سیاسی انتشار نہیں،ترقی کر رہا ہے۔وینزویلا میں سیاست زخمی اور خون آلود ہے۔ تیل کے ذخائر403ارب بیرل روزانہ مگر سیاسی بے یقینی، نتیجہ؟ شدید افراط زر اور سرمایہ کاری صفر۔معاشی جمود۔زمبابوے کے پاس معدنیات کے ایسے ایسے ذخائر کہ مارکیٹ کے منہ میں پانی آ جائے۔کوئلہ،تانبا،لوہا،پلاٹینم اور ایسی ایسی دھات کہ اس کا نام بھی لوگوں کو پتہ نہیں ہے۔مگر جب بھی وہاں الیکشن ہوتا ہے بدامنی مزید بدامنی کو جنم دیتی ہے۔معیشت روتی اور بین کرتی رہتی ہے۔ایسے میں وہاں کے عام آدمی کا معیارِ زندگی؟ مت پوچھ۔ آخری مثال عراق کی ہے۔تیل پید اکرنے والےOPECاراکین میں سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر ہے مگر سیاسی عدمِ استحکام نے اُسے معاشی ابتری کی گود میں دھکیل دیا ہے۔ اور پاکستان؟دنیا بھر میں چوتھا نہری نظام۔امریکہ،چین اور بھارت کے بعدکپاس کی پیداوار میں چوتھا نمبر اور چینی بنانے میں بھی۔ دودھ پید اکرنے والے ملکوں میںپانچواں نمبر۔کھجور کی پیداوار میں چھٹا اور گندم پیدا کرنے میں آٹھواں ملک ہے۔ 105ٹرلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر۔ریکوڈک میں5.9بلین ٹن تانبا۔4.15ملین اونس سونا اور نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ بھی ہمارے پاس ہے۔مگر پھر بھی،بیروزگاری،غربت،افراطِ زر،مہنگائی اور ڈیفالٹ کی آوازیں۔اور پھر IMFکے ترلے اور منتیں۔صرف ایک قسط مل جائے تو لڈیاں،بھنگڑے۔۔مبارک مبارک کی آوازیں۔ وجہ؟Its all about politics۔ پاکستان 1950ء سےIMFکا رکن ہے۔24دفعہ اس نے ہمیں قرض دیا پچھلے73سالوں میں۔اوسط نکالیں۔ہماری اکانومی ہر تین سال بعد ایمرجنسی وارڈ میں ہوتی ہے۔ہم با ر بار ایک جیسی حرکتیں کر کے ہمیشہ مختلف نتائج کی توقع کرتے ہیں۔آپ پیاز بوئیں گے تو کیا گنے اُگیں گے؟ اس مرتبہ وزیر اعظم خود میدان میں کُودے، قرضہ پھر مل گیا۔شرائط وہی پرانی۔مگر ان پر عمل پہلے کب ہوا تھا جو مستقبل میں ہو گا۔مستقل حکمرانوں کو شاید خیال آ گیا ہے کہ سیاسی انتشار کی قیمت معاشی انتشار ہے۔الیکشن کی آمد آمد ہے۔ایک گروپ ہے جو معاشی استحکام کے نام پر انتخاب ٹالنا چاہتا ہے۔وہ کہتے ہیں، پہلے معاشی استحکام۔ پھر الیکشن۔ بات Yes الیکشن یاNoالیکشن کی نہیں ہے۔بات زُلف کی نہیں۔بات رُخسار کی ہے۔ ایک کتاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔Crisis of Democratic Capitalismجسے مارٹن وولف نے لکھا ہے۔ اس کے مطابق معیشت اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ہمارے ہاں سکے کا ایک رُخ اشرافیہ کے پاس ہے اور سکے کا دوسرا رُخ بھی انہی کے پاس ہے۔اس لیے کوئی بھی آئے، کوئی بھی جائے۔۔سیاسی استحکام ہو کہ معاشی۔بنیادی تبدیلی کی جرأت کوئی نہیں کرتا۔وجہ؟ سیاسی آقا خود کو ایوانِ اقتدار میں ہمیشہ مہمان تصور کرتے ہیں۔محدود اوور کی حکومت ہوتی ہے۔آڑھی ترچھی شاٹس کھیلتے ہیں اور ہمیشہ ناکام واپس لوٹتے ہیں۔وہ نالائق بھی ہوتے ہیں اور کرپٹ بھی۔غیر ہمیں Banan Republicکہتے ہیں اورDeep Stateبھی۔کیونکہ ہم سب اپنی اپنی لین سے نکل کر دوسرے کی لین میں گھسے ہوئے ہیں۔لوکل ٹریفک سے۔۔لوکل گورننس تک۔ہم کون لوگ ہیں؟ہم بار بار ایک جیسا تجربہ کیوں دہرا رہے ہیں؟ہمارا حال شاید ایسا ہے۔لکھا اُن کو خط میں کہ دل مضطرب ہے،جواب ان کا آیا محبت نہ کرتے۔تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جاتا دل یوں بہلتے بہلتے۔ہمارے سیاسی عدمِ استحکام کی بنیادی وجوہات جب تک درست نہیں ہوں گی معاشی استحکام نہیں آئے گا۔سیاست تقسیم ہے،عدلیہ بھی تقسیم ،میڈیا ایسا تقسیم کہ نیک نیوز اور فیک نیوز میں فرق کا پتہ نہیں چلتا۔عوام بھی تقسیم۔۔ایسے تقسیم کہ باپ سرکاری ملازم اور حکومت کی لائن ٹو کرتا ہے۔اولاد کسی کی لائن ٹو کرتی ہے؟یہ ہے سیاسی تقسیم۔ایسے میں معیشت ۔۔سیاست کو دیکھ رہی ہے اور سیاست کسے دیکھ رہی ہے؟بات الیکشن ہونے یا نہ ہونے کی نہیں۔بات سیاسی امن کی ہے۔اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو۔۔۔اوپر ہی نہیں۔۔۔نیچے بھی۔ورنہ ہم با ر بار ایک ہی طرح کھیلتے رہیں گے اور میچ بھی بار بار ہارتے رہیں گے۔بدلنا عوام کو نہیں،اُن کو ہے جو پچھلی پون صدی سے نہ کھیل بدلتے ہیں،نہ کھیلنے کا سٹائل۔نتیجہ سامنے ہے اورIMFبھی۔