تاریخ میں آپ کو بہت سی ایسی چیزیں، ایسی کتابیں، ایسی پینٹنگز ، ایسے شاہکار اور بہت کچھ ملے گا کہ جن کے خالق اسے کرنے سے پہلے اپنی صلاحیتوں اور اپنی خوبیوں سے بالکل بھی واقف نہ تھے ، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ مستقبل میں ان کی تخلیق کی اس قدر پذیرائی ہو سکتی ہے۔وہ عوام میں مقبول بھی ہو سکتی ہے اور انہیں نامور بھی بنا سکتی ہے۔ مگر ایسا ہوا، اوران کی تخلیق نے انہیں شہرت کی بلندیوں پربھی پہنچایا اور انہیں عمر دوام بھی دی۔ حالانکہ وہ کام پہلے خود کرنے کو تیار نہ تھے مگر انہوں نے کسی دبائو، کسی مشورے، کسی حادثے یا کسی کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں وہ کام انسان اور انسانیت کی نذر کیا ۔اس کام کے نتیجے میں وہ لوگ اور ان کا شاہکار وہ جس شکل میں بھی ہو، دونوں تاریخ میں جگہ بنانے اور زندہ رہنے میں کامیاب ہوئے۔ امر یکہ کے شہراٹلانٹا، جورجیا میں 8نومبر1900 کو پیدا ہونے والی مارگریٹ میچل (Margrat Michell)ایک عام جنرلسٹ تھی۔ وہ وقت امریکہ کی سول جنگ کے خاتمے کا تھا، جس میںایک مخصوص نسل کا قتل عام اورایک مخصوص کلچر کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔وہاں کے اصل باشندوں کے ختم ہونے کے بعد نئی روایات جنم لے رہی تھیں۔ایسے وقت میں زندگی بڑی کٹھن تھی اور اس نئے ابھرتے ہوئے معاشرے میں نرم خو ہونا ایک جرم سے کم نہیں تھا۔مارگریٹ کا سارا خاندان اس جگہ مقیم تھا۔اس کے اپنے خاندان کے لوگوں نے جنگ کو بڑے قریب سے دیکھا تھا ۔مارگریٹ نے اس دور ستم گر کے بہت سے واقعات اور داستانیں اپنے عزیزوں سے سنی تھیں۔ اسے اس کے والدین نے بھی جنگ اور اس کے بعد نئی آبادکاری کے حوالے سے بہت سے قصے سنائے تھے ۔اسے وہ سب قصے یاد تھے اور اس نے ان سب کا اثر بھی اپنی زندگی میں محسوس کیا تھا۔ وہ کسی درسگاہ نہیں گئی بلکہ اس کی تعلیم اس کی ماں نے کی تھی اور اسے بہت کچھ سکھایا تھا۔جوان ہو کر اس ماحول میں مارگریٹ نے عورتوں کے حقوق کے لئے کام شروع کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ عورت کو معاشرے میں بہتر مقام دلایا جائے یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ 24سال کی عمر میں اس نے 29 سالہ جان مارش (John Marsh) سے شادی کر لی۔مارگریٹ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔وہ ہر وقت کتابیں پڑھ رہی ہوتی۔کبھی کبھی وہ بچوں کے لئے کارٹون بناتی اور کبھی کبھار چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی لکھتی ۔ پہلے وہ جانوروں کے بارے لکھ کر بچوں کو ان کے بارے بتاتی رہی۔ پھر اس نے پریوں کی ننھی منی کہانیاں بچوں کے لئے تخلیق کیں۔ اس کے بعد کچھ ایڈوانچر کہانیاں بھی لکھیںمگر کوئی خاص بڑی تصنیف کے لئے اس نے کوشش نہیں کی تھی۔وہ بچوں کے لئے کئے ا پنے اس کام ہی سے بہت خوش تھی ۔اس کا میاں جان مارش کتابوں کا بالکل بھی شوق نہیں رکھتا تھا بلکہ اس کی کتابیں پڑھنے کی عادت سے بہت تنگ تھا۔ سارے گھر میں جگہ جگہ کتابیں بکھری ہوتیں مگر وہ انہیں دیکھ کر ہنس دیتا۔ وہ مارگریٹ کو پیار سے پیگھی کہتا تھا جس کا مطلب قیمتی موتی ہے۔ ایک دن اس کے میاں نے کہا کہ پیگھی، خدارا، یہ ہر وقت کتاب پڑھنے کی عادت ترک کر دو۔ اور بہتر ہے کہ خود کوئی کتاب لکھوں۔کیا تم کوئی اچھی کتاب نہیں لکھ سکتی۔ مارگریٹ کے لئے اس کے میاں کا یہ کہنا ایک چیلنج سے کم نہیں تھا،چنانچہ اس نے اپنے میاںکا کہا چہلنج قبول کرکے اس کی بات پر فوری عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک کتاب لکھنی شروع کر دی۔کچھ ہی دنوں میں وہ کتاب جو اس کی زندگی کی تصنیف کردہ واحد کتاب ہے ،منظر عام پر آ گئی۔ مارکیٹ میں لوگوں نے وہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی اور فقط چھ ماہ میں اس کتاب کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ 1936 میں چھپنے والی وہ کتاب اپنے وقت کی مقبول ترین کتاب ہے۔اس کتاب نے مارگریٹ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔وہ کتاب آج بھی اتنی ہی شہرت کی حامل ہے اور آج بھی پڑھنے والوں میں اتنی ہی مقبول ۔ جی ہاں وہ کتاب ہے، (Gone with the wind) اردو میں اس کا کچھ ترجمہ کر لیں۔ میں نے اسے ’’ہوا کے دوش پر‘‘ کا نام دیا ہے۔16 اگست 1949 کو مارگریٹ اپنے خاوند کے ساتھ جا رہی تھی کہ اٹلانٹا کی ایک مشہور سٹریٹ، پیچ سٹریٹ پر پیدل سڑک کو کراس کرتے ہوئے،ایک ٹیکسی ڈرائیور نے جو کام سے فارغ ہو کر اپنے گھر جا رہا تھا اسے اپنی کار ٹکرا دی۔ کوشش کے باوجود اس کی زندگی بچائی نہ جا سکی اور وہ زخموںکی تاب نہ لاتے ہوئے ا ٹلانٹا کے ایک ہسپتال میں زندگی کی بازی ہار گئی۔ ـ’’ہوا کے دوش پر ــ‘‘کی کہانی ایک کسان کی مضبوط اعصاب کی مالک حسین و جمیل بیٹی اور ایک ناجائز کاروباری اور بدمعاش شخص کے عشق کی داستان ہے جو ان حالات میں پروان چڑھا کہ جب سول وار کے ختم ہونے پر اس کے اثرات اپنے جوبن پر تھے۔ اس وقت غلامی کا دور ختم ہو رہا تھا اور تعمیر نو کا آغاز ہو چکاتھا۔کہانی کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ جنگ کی کیا ہولناکیاں ہوتی ہیں ، اس کے اثرات کیا ہوتے ہیںاور کسی جنگ کی اصل قیمت کیا ہے جو آخرعام لوگوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔1939 میں اس ناول کی کہانی پر اسی نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔ یہ فلم پچھلی صدی کی بہتریں فلم قرار پائی ۔ اس فلم کو بے پناہ ایوارڈ ملے۔یہ فلم سینما گھروں میںبار بار لگی اور ہر بار لوگوں کا رش قابل دید رہا اور پچھلی صدی کے آخر تک پوری دنیا میںاس کی کہیں نہ کہیں نمائش ہوتی رہی۔ وقت کے ساتھ پیسے کی قیمت میں جو کمی ہوئی ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر بات کریں تو شاید آج تک کسی دوسری فلم نے اتنا بزنس نہیں کیا جتنا "Gone with the wind" نے آج تک کیا ہے۔مارگریٹ کا ناول آج بھی دنیا کے بہترین ناولوں میں ایک اور اس ناول پر بننے والی فلم بھی دنیا کی بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے۔