یہ بات کس قدر معیوب سی لگتی ہے، کہ ہم جانتے بوجھتے بھی سارا سال کچھ نہیں کرتے کہ جیسے ہی موسم گرما کے بعد موسم سرما شروع ہوگا، تو فضاء میں موجود گردوغبار اسموگ کی شکل میں نیچے آئے گا۔ اور ہمیں، ہمارے بچوں اور بڑوں کو نقصان پہنچائے گا۔ پھر ہم کبھی سمارٹ لاک ڈائون کی طرف بھاگتے ہیں تو کبھی انڈسٹری کو بند کرنے کی طرف۔ لیکن مجال ہے اس کا مستقل سدباب نکالا جا رہا ہو۔ چلیں مان لیا کہ شہروں میں زندگی بے ہنگم ہوگئی ہے، تو کیا نیویارک، ٹورنٹو،ٹوکیو، لندن جیسے شہر ہم سے کم مصروف ہیں کہ وہاں کا ائیر کوالٹی انڈیکس ہمیشہ بہترین رہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ آلودگی ختم کرنے کے طریقوں کو پورا سال اپناتے ہیں جبکہ ہم محض چند ماہ ادھر اُدھر ہاتھ پائوں مارکروقت گزاری کرتے ہیں۔ اور پھر ایسا نہیں ہے کہ لاہور یا کراچی کی فضائیں شروع سے ہی آلودہ رہی ہیں، بلکہ میری عمر کے بہت سے دوست یہ بات جانتے ہوں گے کہ لاہور کی فضائیں کس قدر پرفضاء ہوا کرتی تھیں کہ صبح صادق سے لے کر شام تک مجال ہے کہیں سے اسموگ وغیرہ کا کوئی نام و نشان نظر آجائے۔ حالانکہ اُن دنوں 2سٹروک موٹرسائیکلیں چلا کرتی تھیں، جو زیادہ دھواں پیدا کرتی تھیں، مگر پھر بھی حالات اس طرح کے گھمبیر نہیں ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب تو اگر آپ لاہوریا پنجاب کے کسی دوسرے شہر میں رہ رہے ہیں تو یقینا آپ اس دردناک کرب سے ضرور گزر رہے ہوں گے کہ ہم اپنے اندرسانس کے ذریعے زہر کا منبع لے کر جا رہے ہیں۔ اس قدر آلودگی تو ہم نے شاید زندگی میں کبھی نہیں دیکھی جتنی چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور پھر یہ کس قدر ’’اعزاز‘‘ کی بات ہے کہ اس بار بھی ہم آلودگی میں ٹاپ پہلی پوزیشن حاصل کر رہے ہیں۔یعنی پہلے نمبر پر لاہور، دوسرے پر کراچی، تیسرے پر دہلی ، چوتھے نمبر پر کلکتہ، پانچویں پر ڈھاکہ آتے ہیں۔ یعنی ہم کرہ ارض پر موجود 10ہزار شہروں میں سے آلودگی کے حوالے سے ایک بار پھر ’’فرسٹ‘‘ آرہے ہیں، اور ائیر کوالٹی انڈکس میں ہم نے ریکارڈ نمبرز 200-250حاصل کیے ہیں۔ حالانکہ نارمل ائیر کوالٹی انڈکس 0سے 50کے درمیان میں ہونا چاہیے، لیکن ہم تو پھر ہم ہیں۔اور ہم تو دریائوں میں آلودگی کا معاملہ ہو، نہری نظام میں فیکٹریوں کے زہریلے پانیوں کی ملاوٹ ہو یا سبزیاں کیمیکل والے پانی سے اُگائی جا رہی ہوں،ہم ہمیشہ سے ہی ’’فشٹ ‘‘ آتے رہے ہیں حالانکہ اس کے برعکس دنیا کے مصروف ترین شہر نیویارک کا ائیرکوالٹی انڈکس 4 ، کینیڈا کا 9 ، اٹلی کا 10اور لندن جیسے شہر کا ائیر کوالٹی انڈکس 29ہے جبکہ ہم ان شہروں سے آلودگی میں کئی گنا آگے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں قصور محکمہ ماحولیات،حکومتی پالیسیوں اور ان منصوبہ سازوں کا ہے جو اپنی دیہاڑیاں لگانے کے لیے انڈسٹری کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کروانے سے قاصر رہتی ہیں۔ تبھی آج 12کروڑ آباد والا صوبہ پنجاب دل، پھیپھڑوں کے امراض کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خیر ویسے تو کالم کا موضوع خاور مانیکا، ایون فیلڈ ریفرنس، سائفر کیس یا 9مئی ہونا چاہیے تھا مگر کیا کوئی جانتا ہے؟ کہ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں جہاں کم و بیش 6کروڑ افراد بستے ہیں، وہ کس قدر دائمی امراض کا شکا ر ہو رہے ہیں، ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق ان شہروں میں رہنے والوں کی زندگیاں نارمل اوسط عمر سے 10سال تک کم ہو رہی ہیں۔ کیا حکومتوں اور اداروں کے لیے یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے؟ کہ اُس کے شہریوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہو رہی ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ اس وقت گھٹن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔بہرحال اس ماحولیاتی تبدیلی میں قصور صرف پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے، ویسے تو ماحولیاتی آلودگی سے مراد کہ جب سے انسان نے تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر معدنیات زمین سے نکال کر استعمال کرنا شروع کی ہیں تب سے زمین پر موجود گیسوں کی مقدار کے تناسب میں فرق آگیا ہے، جیسے کوئلہ، گیس یا آئل جلنے سے دھواں( کاربن ڈائی آکسائیڈ) بنتا ہے جو فضاء میں موجود آکسیجن کی مقدار کو کم کر دیتا ہے اور جب آکسیجن کم ہوتی ہے تو درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔پھر سائبیریا جیسی جگہوں پر منجمد زمین پگھل رہی ہے، جہاں سے میتھین جو ایک گرین ہاؤس گیس ہے فضا میں خارج ہورہی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔پھر دنیا بھر میں درختوں کو جلایا یا انھیں بے دردی سے کاٹا جارہا ہے تو عام طور پر ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے، اُس کا اخراج ہوجاتا ہے۔ خیر انہی چیلنجز سے نمٹنے، امیر ممالک کو کوئلہ جلانے سے روکنے اور دیگر ممکنہ اور مہیب خطرے سے بچانے کے لیے ہر سال ’’کاپ‘‘ اجلاس منعقد ہوتا ہے، جس کے شرکا 197ممالک ہوتے ہیں۔ اس اجلاس کا فائدہ امیر ممالک کو ہو رہا ہے، جو کوئلے کے استعمال کو ترک کر رہے ہیں، جبکہ غریب ممالک اُن کے استعمال شدہ کوئلے کے انرجی پلانٹس کو استعمال کر کے یا تو بجلی بنا رہی ہے، یا اسے بڑی بڑی ملوں میں استعمال کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ان ممالک میں چند سالوں میں کم از کم 2ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ خیر ہم واپس آتے ہیں وطن عزیز اور پنجاب میں پھیلی سموگ اور حکومتی کارکردگی کی طرف، تو پاکستان میں پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اور یہ نقصان ہماری اپنی غلطیوں کے باعث بھی ہے۔ جسے ہم آسانی سے دور بھی کر سکتے ہیں، جیسے ہم جو کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اسے آگ لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام، ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔جگہ جگہ فیکٹریاں بننے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کرم کش کیمیکلز کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔ ادھر بے شمار ہاؤسنگ اسکیمیں زرعی زمینوں کو ختم کرکے بنائی جارہی ہیں ، دولت کی ہوس میں لوگ اندھے ہوگئے ہیں ، بحیثیت قوم ماحول دشمنی میں ہم اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔دھند جیسی نظر آنے والی اسموگ میں سلفر، لیڈ، میتھین سمیت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے ، اسموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص صوبہ پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور تباہ کن گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں آگاہی اور شعور بیدارکیا جائے ، کیونکہ یہ مسئلہ ہماری نسلوں کی بقا سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم ’’مردہ ماحول‘‘ میں رہیں گے اور ہر سال ’’ماہ اسموگ ‘‘ منا کر اور طفل تسلی دے کر خود بری الذمہ ہو جائیں گے ، تو کیا آپ مجھے بتائیں کہ ہم اگلے کئی سال تک اس آلودگی سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں؟ نہیں ناں! تو بس پھر تیار رہیں!