اسلام آباد ( جہانگیر منہاس) مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیخلاف اسلام آباد میں 13 روزسے جاری دھرنا مقاصد حاصل کئے بغیر ہی ختم کرنے کے اعلان کیساتھ ہی دارالحکومت میں افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ بعض حلقوں نے مولانا کے دھرنے کو غیر سنجیدہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ فضل الرحمٰن جیسے زیرک سیاستدان کو جب اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ وہ دو دن کے اندر وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں لے سکتے تو انہوں نے بھرے پنڈال میں اتنا بڑا اعلان کیوں کیا۔ گو مولانا کے دھرنے کے شرکا کی تعداد عمران خان کے 2014 والے دھرنے سے کہیں زیادہ تھی، اسکے باوجود محض 13 دن دھرنے کی تھکاوٹ نے مولانا کی سیاست پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ۔ بعض حلقوں نے مولانا کے دھرنے کے خاتمے کو بھی ایک ڈیل قرار دیا جس میں ساز باز کے تحت دھرنا ختم کرنیکا منصوبہ دیا گیا ہے ، اسی منصوبہ کے تحت مولانا نے اپنی پارٹی کے کارکنوں سے اپنی فیس سیونگ کی کہ وہ اب اسلام آباد کے بجائے دور دراز علاقوں میں شاہراہیں بند کرنے کیلئے روانہ ہو جائیں۔ جے یو آئی کے ذرائع کے مطابق دھرنے کے خاتمے میں فضل الرحمٰن کے قریبی سیاسی رفقا کی بے وفائی بھی شامل ہے جنہوں نے مولانا کو اسلام آباد لا کر تنہا چھوڑ دیا اور پھر ہر گزرتے دن کیساتھ مولانا دلبرداشتہ ہوتے گئے اور آخر کار دھرنا ختم کرنیکا اعلان کر دیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا پہلی مرتبہ اسلام آباد آزادی مارچ کے مستقبل کے حوالے سے ہم خیال جماعتوں کی رہبر کمیٹی تشکیل دینے کے باوجود مذکورہ کمیٹی سے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکے ۔ فضل الرحمٰن کی طرف سے پہلے دھرنے کے مستقبل کے حوالے سے رہبر کمیٹی کو فیصلے کا مینڈنٹ دیا گیا، تاہم مولانا نے بدھ کی شام کنٹینر پر رہبر کمیٹی کے ممبرز کو دعوت دیئے بغیر ہی دھرنا ختم کرنیکا اعلان کر دیا جو انکی سیاسی تنہائی کی ایک زندہ مثال ہے ۔