میں جیپ کی پچھلی سیٹ کے پائیدان میں ساکت پڑی رہی ۔ جیپ کی رفتار آہستہ آہستہ بڑھی ۔ ’’ کبھی کبھی سامنے کی خرابی بھی دیر سے نظر آتی ہے ۔‘‘ ایک طالب بولا ۔ ’’ ہوں۔‘‘ دوسرے نے کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا ۔ اس وقت میرے دل کی دھڑکنیں کچھ تیز تھیں ۔ جو ڈرائیونگ سیٹ کے برابر میں بیٹھا تھا ، شاید اسے اس ڈبے کی ضرورت پڑجاتی جو پائیدان ہی میں رکھا تھا ۔ وہ مجھے دیکھ لیتا اور پھر مجھے ان دونوں کو ختم کرنے کے لیے ریوالور کا استعمال کرنا پڑتا ۔ اس کے علاوہ چارہ کارنہ ہوتا لیکن گولیاں چلنے کی آوازیں مجھے مزید خطرات سے دوچار کرتیں اور مجھے ان سے نبردآزما ہونا پڑتا ۔ ’’ تمہیں کچھ معلوم ہے ؟چوکیوں پر حملہ کب کرنا ہے ؟‘‘ڈرائیونگ کرنے والے نے پوچھا تھا ۔ ’’ نہیں ۔‘‘ دوسرے طالب نے جواب دیا ۔’’ ابھی امیر نے صرف ٹولیاں بنادی ہیں جو حملہ کریں گی ، وقت نہیں بتایا گیا ۔‘‘ ’’ ٹولیاں بنادی ہیں تو آج رات یا زیادہ سے زیادہ کل رات حملہ کیا جائے گا ۔‘‘ ’’میں جنت میں جانے کے لیے بے چین ہوں۔‘‘ ’’تم بھی ہو ان ٹولیوں میں؟‘‘ ’’ہاں ۔‘‘ جواب دیا گیا۔’’جیکٹ مجھے ہی پہننی ہے۔ میرے ساتھ دو اور ہوں گے۔ انہیں صرف فائرنگ کرنی ہے۔ شاید انہیں بھی فوج کی گولیاں لگ جائیں‘ وہ بھی شہید ہو جائیں لیکن میری شہادت تو یقینی ہے۔‘‘ ڈرائیونگ کرنے والے نے ٹھنڈی سانس لی۔ نہ جانے کب اوپر سے مجھے اس کا حکم ملے گا۔ میں اپنی بیوی سے بہت تنگ ہوں۔ حوریں تو مجھ سے بہت محبت کریں گی۔‘‘ یہ باتیں سن کر میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ لوگوں کی اتنی زبردست برین واشنگ آخر کس طرح کی جاتی ہوگی! وہ دونوں جنت‘ شہادت اور حوروں کی باتیں کرتے رہے۔ جیب تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔ پھر اس کی رفتار کم ہونی شروع ہوئی۔ آخر وہ ایک ایسی جگہ رکی جہاں تین طرف دیواریں اور اوپر چھت تھی جہاں سے وہ اس جگہ داخل ہوئی تھی‘ وہاں شیلٹر جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو اس جگہ کو گیراج کہا جا سکتا تھا۔ شیلٹر نہ ہونے کی وجہ سے اسے ’’شیڈ‘‘ ہی کہا جا سکتا تھا۔ انجن بند کیا گیا۔ وہ دونوں جیپ سے اترے اور شیڈ سے باہر جانے لگے۔ میں نے سکون کی سانس لی لیکن میری یہ کیفیت لمحاتی ثابت ہوئی ۔ شیڈ سے باہر قدم رکھتے ہی ایک بولا۔ ’’میں اپنا ڈبا لینا تو بھول ہی گیا!‘‘ ’’لے لو جا کر! میں چلتا ہوں۔‘‘ دوسرا طالب آگے بڑھ گیا۔ اب میرا دیکھ لیا جانا یقینی تھا لیکن اس وقت میرے ذہن نے بہت تیزی سے کام کیا۔ میں آگے کی سیٹوں کی درمیانی خلا سے گزر کر ان سیٹوں کے پائیدان میں لیٹ گئی۔ ابھی دن نہیں نکلا تھا اس لیے اندھیرے میں اس طالب کو میں نظر آجاتی۔ اس طالب نے پچھلی سیٹ کے پائیدان سے وہ ڈبا اٹھا لیا ہو گا۔ میں نے اس کے واپس جاتے ہوئے قدموں کی آواز سنی اور دوسری بار سکون کا سانس لیا جو لمحاتی نہیں تھا۔ میں محفوظ رہی تھی۔ پھر میرا دوبارہ پچھلی نشست کے پائے دان میں جانا اس خدشے کے تحت ضروری تھا کہ کہیں ڈرائیونگ کرنے والا اپنی سیٹ پر کچھ نہ بھول گیا ہو اور وہ بھی پلٹ کر آئے۔ جب پانچ سات منٹ ایسا نہیں ہوا تو میں پچھلی سیٹ کے درمیان سے بہت آہستہ آہستہ اٹھی۔ ذہن میں یہ خیال تھا کہ شاید اس جگہ کے سامنے سے کوئی گزرے اور مجھے دیکھ لے۔ جھانک کر میں نے اطمینان کرلیا کہ سامنے کوئی نہیں تھا۔ کوئی ہوتا تو وہ مجھے سائے کے مانند ہی نظر آتا کیونکہ صبح ہونے میں دیر تھی‘ ابھی اندھیرا ہی تھا۔ جیپ سے اتر کر میں اس طرف بڑھی جہاں سے جیپ اس شیڈ میں آئی تھی میں نے جھانک کر باہر دیکھا۔ ہر طرف مکمل سناٹا تھا۔ وہاں کچھ فاصلے پر میں نے ایک دو منزلہ مکان بھی دیکھا۔ بنا ہوا بھی وہ کسی قدر زیادہ رقبے میں تھا۔ میں جس شیڈ میں تھی‘ ویسے ہی بارہ چودہ شیڈ دائیں بائیں بھی تھے۔ اس میں بھی جیپیں یا لینڈ کروزر کھڑی کی جاتی ہوں گی۔ عام قسم کی کاریں اس علاقے میں چل ہی نہیں سکتی تھیں۔ میں واپس لوٹی اور جیپ کے اگلے حصے کی آڑ میں بیٹھ کر موبائل نکالا۔ مجھے خیال تھا کہ وہ پریشان ہو سکتی تھیں۔ اب اتنا وقت تھا کہ میں ان سے تفصیلی بات کر سکتی تھی۔ دوسری طرف سے میری کال فوراً ریسیو کی گئی۔ ’’میں بے چینی سے منتظر تھی تمہاری کال کی۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’مجھے اب مہلت ملی ہے کہ آپ سے تفصیلی گفتگو کر سکوں۔‘‘ ’’میرا ذہن بہت منتشر ہے۔ سونیا نے بھی ابھی تک رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔ تم دونوں ہی نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ کسی طرف مڑنا نہیں لیکن…اچھا خیر! تم اپنا سنائو۔‘‘ میں نے انہیں شروع سے آخر تک سب کچھ وضاحت سے بتا دیا۔ سب کچھ سننے کے بعد وہ جلدی سے بولیں۔’’تم اس شیڈ کی نشان دہی کر سکتی ہو؟‘‘ ’’یہ میں کیسے کر سکتی ہوں بانو؟‘‘ ’’تم نے ابھی بتایا ہے کہ بارہ چودہ شیڈ ایک قطار میں بنے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’جی ہاں۔ تو؟ ’’یہ بتائو کہ تم کس شیڈ میں ہو! تمہارے شیڈ کے دائیں جانب کتنے شیڈ ہیں اور بائیں جانب کتنے شیڈ ہیں۔‘‘ ’’ مجھے دوبارہ شیڈ کے باہر جھانکنا پڑے گا ۔‘‘ ’’ تو دیکھو جلدی ۔ ڈسکنکٹ نہ کرنا ۔ میں ہولڈ کیے رہوں گی ۔‘‘ ’’ میں دیکھتی ہوں۔میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور شیڈ کے داخلی حصے کی طرف گئی ۔ میں نے جھانک کر دیکھا تو بالکل صحیح اندازہ نہیں کرسکی ۔ مجھے زمین پر لیٹ کر کچھ آگے جانا پڑا ، تبھی میں اس قابل ہوئی کہ بانو کو یقین سے بتا سکوں ۔واپس جیپ کی آڑ میں جاکر بیٹھ گئی ۔موبائل بہ دستور میرے ہاتھ میں تھا ۔ لائن ڈسکنکٹ نہیں ہوئی تھی ۔ ’’ یہ کل گیا رہ شیڈ ہیں ، میں بارہ چودہ سمجھی تھی ۔ اب کسی قدر باہر نکل کر دیکھنا پڑا ۔‘‘میں نے بانو کو بتایا ۔’’ دائیں جانب سات شیڈ ہیں اور بائیں جانب تین ہیں ۔ اگر دائیں جانب سے گنا جائے تو میں آٹھویں شیڈ میں ہوں ۔ ‘‘ ’’ ٹھیک ۔‘‘بانو نے کہا اور رابطہ منقطع کردیا ۔ میری سمجھ میں نہیں آسکا کہ بانو نے میری لوکیشن جاننے کے بعد فوراً رابطہ منقطع کردیا تھا ۔ پھر دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے مجھے آہٹ سنائی دی ۔ کوئی شیڈ میں آیا تھا ۔ ’’ صدف !‘‘ پکارا گیا ۔ میں اچھل پڑی ۔ وہ آواز بانو کی تھی ۔ اس شیڈ تک بانو کی رسائی اتنی جلدی کیسے ہوئی ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے !