برادرم فرحت شیر خان کی پوسٹ سے آگاہی ہوئی کہ جناب محبوب علی خان ہم میں نہیں ہیں وہ دنیاوی جھمیلوں سے نجات پاکر خالقِ حتیقی کے حضور پیش ہوگئے ۔اِس خبر سے ایک دم یادوں کا بھولا ہوا زمانہ فلم کی طرح چلنے لگا۔ اْن کے جانے پر مجھے نوائے وقت میں گزارے ہوئے سالہا سال کے خوبصورت دِن یاد آگئے۔ پھر وہ دوست جن کے ساتھ بیتے دنوں کی بے شمار باتیں اور یادیں آج بھی زندگی کا انمول سرمایہ محسوس ہوتی ہیں وہ زمانہ جن کے ساتھ تہذیبی سماجی اور صحافتی رشتے تھے۔ ابلاغ کی دنیا بہت مشکل ہے۔ عام زبان میں اخبار نکالنا ایک ایسی مشقت ہے جس کا دورانیہ دن رات پر محیط رہتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم خانصاحب کا بچپن لڑکپن اور جوانی کیسی گزری۔ میں نے اْنہیں پہلی بار بزرگی کے حصار میں دیکھا نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ ڈیسک ایڈیٹنگ جیسی ذمہ داریوں سے نبرد آزما رہے۔ خبر کی سچائی جانے بغیر اْسے کبھی نہیں چھاپا اِس اعتبار سے اْنہوں نے قاری سے کبھی بے وفائی نہیں کی۔ بلاشبہ وہ محتاط سہی لیکن زبردست پروفیشنل تھے۔ اْنہیں اپنے گھر سے محبت اور لگاؤ تھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ دفتر سے زیادہ مانوس تھے۔ تو بے جا نہ ہوگا۔ سینئر جونیئرز سے گفتگو، استدلال اور نشست و برخاست کے دوران حوصلہ، سلیقہ اور وضعداری مثالی تھی۔ طبیعت میں کج بحثی، تکرار اور علم کی بنیاد پر دوسروں کو ڈھانے کی عادت نام کو نہ تھی۔ وہ بے قرار تو نہیں ایک انتہائی ذمہ دار نیوز ایڈیٹر دکھائی دئیے۔ کاپی کی تیاری میں براہِ راست دلچسپی اور آخری لمحات میں بھاری بھرکم اشتہار کی آمد سے خبروں کی ترتیب میں انتشار پر قابو پانا اِن کے فرائض میں شامل تھا۔ نوائے وقت میں جناب نیر علوی جیسے مرنجان مرنج ایڈیٹر سے واسطہ پڑا۔ وہ ذہین اور محتاط ایڈیٹر تھے اْن کی کسی ادا میں کوئی بھونچال نہیں تھا۔ وہ جنگ کے جناب یوسف صدیقی اور اخبار جہاں کے جناب نثار احمد زبیری کی طرح پرفیکشنسٹ نہیں تھے۔ لیکن جو خبر اْن تک جاتی اْس پر قلم ضرور لگاتے تھے۔ بہت ہی پیارے دوست الیاس شاکر کے ساتھ خبروں کے متنازعہ اور نوکیلے انداز پر اْن کی بحث ضرور ہوتی اور شاکر صاحب بھی ادارے ہوں یا شخصیات اپنی خبروں میں چھیڑخانی اور چٹکیاں لینے سے باز نہیں آتے تھے ،بعد میں شاکر صاحب نے اپنی قلمی جادوگری کے تمام کمالات قومی اخبار میں آزمائے اور اِس اخبار کو شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ہم یہاں بچھڑنے والے اپنے دوست یوسف خان کو کیسے بھول سکتے ہیں وہ باکمال اور بے قرار رپورٹر تھے۔ کونسی خبر فضا میں تیررہی ہے ،کونسی زمین تلے جھانک رہی ہے اور کونسی پردوں کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اْنہیں روشن آنکھیں دے رکھی تھیں اور زرخیز ذہن بھی۔ اپنے منفرد لہجے اور اسلوب مں کالم لکھتے جس میں واقعات کی عکاسی بھی ہوتی اور ادب کا چٹخارہ بھی۔ کالم نگاری کو نت نئے رنگ میں ڈھالنے میں یوسف خان اور برادرم الیاس شاکر ہمیشہ مدمقابل رہے۔ ظفر اقبال کیا شاندار انسان تھا۔ ہمہ وقت متحرک، محبتیں بانٹنے اور دْعائیں سمیٹنے کا فن کوئی اْن سے سیکھتا ہر دْکھ درد اور خوشی میں قدم بہ قدم چلنے والا دوست آنکھیں موندکر سب کو رْلاگیا۔ محفوظ علی خان اعلیٰ اخلاق کا مرقع تھے۔ قاری حسن جاوید اپنے اسٹائل کے منفرد انسان تھے۔ کیسے کیسے دلآویز ستارے تھے ایک کے بعد ایک بجھتے چلے گئے۔ درحقیقت صحافتی زندگی خطرات اور چیلنجوں سے عبارت ہوتی ہے۔ نوائے وقت کے گزرے دنوں میں خطرات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔ دھمکیاں، راکٹ لانچر کا حملہ بے قابو مشتعل ہجوم کا دفتر کو آگ لگانا، خاتون کا خود کش حملہ جس نے متعدد زندگیوں کے چراغ بجھادئیے لیکن اندازہ یہی ہوتا ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں اگر آپ اِس پروفیشن میں ہیں تو تمام تر خطرات کے باوجود دور اندیشی فراست اور معاملہ فہمی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ایک کا متبادل انسان مارکیٹ میں موجود ہے خود کو غیرمتبادل اور انمول سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں لیکن یہ آپکے ہنر اور آپکی شخصیت کا جادو ہوتا ہے۔ یہ اْنکی محبت اور ارادت کا کمال ہوتا ہے کہ آپ یادوں میں زندہ رہتے ہیں نوائے وقت میں گزرے وقت کی بے شمار یادیں ہیں لیکن اِس عرصے میں جن محبت کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ کام کیا اور وہ آج ہم میں موجود نہیں۔ محبوب علی خان کو یاد کرتے ہوئے مجھے ایسے بے شمار صحافی یاد آ رہے ہیں جن پر خان صاحب نے بڑے احسانات کئے تھے جن کے بوجھ سے ان کی گردن سیدھی نہیں ہوتی کسی کے لئے وہ بڑے بھائی تھے اور کسی کو اولاد کی طرح چاہا۔ اس لیے آج بھی جب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو خان صاحب کی شفقت کے آگے نہ ان کی زبان کھلتی ے نہ آنکھ اُٹھتی ہے۔ اس وقت کے نوجوان ساتھی جو آج بڑے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر انہیں محبوب علی خان صاحب کی انسپائریشن نہ ملتی تو انہیں پوری زندگی اپنی صلاحیت کا علم نہ ہوتا۔ انہوں نے اپنی محبت اور شفقت سے کسی کو نیوز مین بنایا اور کسی کو کالم نویس یونیورسٹی کے بچے اور بچیاں جب ٹریننگ کے لیے آتے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ نوائے وقت میں ان کا والہانہ استقبال ہوتا کہ نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی صاحب کی خصوصی ہدایت کا نتیجہ تھا۔ یہ نظامی صاحب کا کمال تھا کہ ان کے ادارے کے لوہے کے ٹکڑوں کو سونا بنا دیا۔ نظامی صاحب کی شخصیت تو سچ مچ اتنی ہمہ جہت تھی کہ اس کا احاطہ کرنے کے لیے کالم نہیں کتاب لکھنی پڑے گی۔ نظامی صاحب کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں ہزاروں لوگ لکھ رہے ہیں لیکن ان کی تحریریں اثر سے خالی ہیں اس کی ہرگز یہ وجہ نہیں کہ وہ برا لکھتے ہیں۔ محنت نہیں کر پاتے یا ان کے پاس لکھنے کے لیے کچھ نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ان میں اکثر کرافٹس مین شپ کی صلاحیت سے مالا مال ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی لفظوں کو دلوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں ملی۔ انہیں تیر بن کر سینے میں اترنے کا حکم نہیں ملا بس اتنی سی بات ہے، باقی سب لفظوں کا گورکھ دھندہ ہے۔ وہ عموماً کہا کرتے تھے کہ ایک اچھے قلمکار کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ صحرا کے ٹیلوں سے مخاطب نہیں ہے۔ جیتے جاگتے انسانوں سے گفتگو کر رہا ہے ۔اسے خبر ہے کہ کس نے کب کہاں اور کیا کرنا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں یہ سیکھا کہ ہم جیسے عام لوگوں کے لیے اللہ کے کرم اور محنت کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ انسان کے وہ اثاثے ہیں جنہیں دنیا کی کوئی طاقت چھین نہیں سکتی اور ساتھ میں بڑے لوگوں کی شفقت بھی مل جائے تو کیا کہنے۔ یہ قیمتی لوگ ہوتے ہیں۔ ان سب پر اللہ کا کرم ہو۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر دعویٰ کر سکتا ہوں کہ دنیا ہی اللہ کے کرم سے بڑی کوئی طاقت نہیں اور محنت سے بڑا کوئی استاد نہیں۔ ہر انسان محنت کر کے کامیاب ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ بے انصاف نہیں وہ کسی کی محنت اکارت جانے نہیں دیتا۔ آخر میں میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں نے محبوب علی خان سے ایک خوبی کا راز جانا اور وہ ہے معاملہ فہمی۔ یہ ایسا گر ہے کہ جو آپ کے ہنر کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت کو بھی روشن کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین!