ایک گھنٹے بعد جب میں فیصل آباد سے روانہ ہوئی تو میری کار میں شاردابھی تھی ۔ خود اس کی لینڈ کروزر میری کار کے پیچھے چل رہی تھی ۔ اس میں اس کے دوباڈی گارڈ تھے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں ۔ ڈرائیونگ کرنے والا جوان العمر شخص تھا ۔ شاردامجھے اس کا نام تو بتاچکی تھی ۔ اس کے بارے میں تفصیل ؟ شاردانے کہا تھا کہ اس بارے میں وہ راستے میں بتائے گی ۔ ’’تمھارے با ڈی گارڈ تو یہاں کے روایتی لباس میں ہیں۔‘‘ میں نے کار چلاتے ہوئے شارداسے کہا ۔ ’’’لیکن باختر سوٹ پہنے ہوئے ہے۔وہ مقامی بھی معلوم نہیں ہوا۔‘‘ شارداہی نے مجھے اس کا نام با ختر بتایا تھا ۔ ’’وہ لاہور کا رہنے والا ہے ۔ ‘‘شاردا نے جواب دیا ۔ ’’میں نے اشتہار دیا تھا تو کافی لوگ آئے تھے ۔ میں نے ان میں سے باختر کا انتخاب کیا ۔‘‘ ’’ لیکن کس سلسلے میں ‘‘ ’’ میں پاکستان کے سیاست دانوں اور یہاں کی سیاست پر کتاب لکھ رہی ہوں ۔ معلومات حاصل کرنے کے لیے میں نے کتابیں تو بہت جمع کرلی ہیں ، پھر بھی انٹرنیٹ سے کام لینا پڑتا ہے ۔ سرچنگ میں مجھے بہت بوریت ہوتی ہے، اس لیے صحیح طریقے سے سرچنگ کر بھی نہیں پاتی ۔بس اسی لیے میں نے با ختر کو اس سلسلے میں اپنے مددگار کے طور پر رکھا ہے ۔ وہ سرچنگ کے لیے بہت صحیح الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔‘‘ ’’بہت اہم کام کا انتخاب کیا ہے تم نے۔‘‘میں نے کہا۔پھر پوچھا۔’’کتنا لکھ ڈالا؟‘‘ ’’میں نے غلط کہا تھا کہ کتاب لکھ رہی ہوں ، در اصل کتاب لکھنے کی تیاری کررہی ہوں ۔ ابھی تو نوٹس لکھ رہی ہوں ، لیکن نوٹس ہی لکھنے میں دو سو سے زیادہ صفحے بھرگئے ہیں ۔‘‘ ’’نوٹس جمع کرنے میں ہی خاصا سمجھ لیا ہوگا تم نے یہاں کی سیاست کو، کیا خیالات ہیں تمھارے؟‘‘ ’’گھٹیا۔‘‘شاردا نے منہ بنایا۔’’بہت گھٹیا ہے یہاں کی سیاست! تجارت بن گئی ہے ۔ سیاست داںتو لٹیرے ہیں ، ڈاکو !.....کھاگئے پاکستان کو! .....جن کو ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے نا ، وہ سچ مچ ڈکٹیٹر نہیں تھے۔ یہ بھی بڑی بے ہودہ بات ہے کہ بد ترین جمہوریت ، ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے ۔ یہ وہ لوگ کہتے ہیں جنہیں اس نام نہاد جمہوریت میں جتنا کھانے کو ملتا ہے ، ڈکٹیٹر شپ میں نہیں ملتا ۔ یہاں تو خمینی جیسا کوئی ڈکٹیٹر آئے ، تبھی ملک کی قسمت بدلے گی ورنہ ....سچ جانو صدف! میں تو بہت مایوس ہوں مستقبل سے ۔‘‘ ’’ تمہاری ایسی کتاب تو بین ہوجائے گی ۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا ۔ ’’ میں انگریزی میں لکھ رہی ہوں ، اور چھپوائوں گی بھی یورپ یا امریکا میں !.....کیا تمھیں بھی میرے خیالات سے اختلاف ہے ؟‘‘ ’’میں اس بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنا چاہوں گی ۔ بس ایک جملہ کہتی ہوں ، اس کے بعد ہم اس موضوع پر بات پھر کسی وقت کریں گے۔‘‘ ’’کیا جملہ کہنا چاہتی ہو؟‘‘ ’’ہماری سیای جماعتوں میں بت پرستی آگئی ہے ، اس میں تبدیلی نہیں آئے گی تو جمہوریت بھی نہیں آئے گی ، میرا مطلب ہے صحیح معنوں میں جمہوریت ، اور اب ہم کسی دوسرے موضوع پر بات کریں گے۔‘‘ ’’چلو ٹھیک ہے ۔ تم نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ اس طرف کیسے آنکلیں ؟‘‘ ’’ بس سیاحت سمجھ لو ! میں اپنے وطن کا گوشہ گوشہ دیکھنا چاہتی ہوں ۔اس طرف ایک کام بھی نکل آیا جو در اصل میرا کا م ہے بھی نہیں ۔ ’’میں نے کہا۔’’میں ادھر آنے کا ارادہ کررہی تھی تو جھنگ میں رہنے والے ایک آدمی کے لیے ایک صاحب نے مجھے ایک پیغام دے دیا ۔ وہ پہنچانا ہے انہیں ۔‘‘ شاردا ہنسی ۔انٹرنیٹ کے زمانے میں زبانی پیغام؟‘‘ ’’جھنگ میں جو شخص ہے، ان کے پاس کمپیوٹر نہیں ہوگا۔‘‘ ’’اسمارٹ فون تواب بڑی حد تک عام ہو گیا ہے‘‘ ’’وہ بھی نہیں ہو گا اس کے پاس ‘‘ ’’کیا نام ہے؟‘‘ ’’علی محمد‘‘ ’’اس نام کے تو جھنگ میں نہ جانے کتنے ہوں گے۔‘‘ ’’پیغام دینے والے نے اس کے شناختی کارڈ کی فوٹو اسٹیٹ دی ہے۔‘‘ میں نے کار کی رفتار کم کرتے ہوئے کہا اور پرس سے فوٹو اسٹیٹ نکال کر شاردا کی طرف بڑھائی۔’’ اس کی تصویر دیکھ کر شاید تم پہچان لو اور مجھے اس کا گھر ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو۔‘‘ وہ اسی آدمی کے شناختی کارڈ کی فوٹو اسٹیٹ تھی جو بانو کے بنگلے میں میری کہنی کی ضرب سے ہلاک ہوا تھا۔ شاردا چونک پڑی۔ ’’اوہ!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔’’جانتی ہو تم اسے ؟‘‘ ’’نہیں، میں نہیں جانتی۔ میں تو اس کا پتا دیکھ کر چونکی ہوں۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’ کچھ بستیاں جھنگ شہر سے باہر بھی ہیں۔‘‘ شاردا نے بتایا’’ زمینیں جھنگ کے زمیںداروں ہی کی ہیں اس لیے ان بستیوں کو بھی جھنگ میں ہی شمار کیا جاتا ہے ۔ ان بستیوں کے جو نام ہیں، انہی میں سے ایک بستی کا نام ہے اس شخص کے پتے میں !‘‘ ’’تو اس میں چونکنے کی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کار کی رفتار بڑھا دی تھی۔ ’’سرکاری طور پر تو اس بستی کا یہی نام ہے جو لکھا ہوا ہے لیکن جھنگ کے بہت سے لوگ کچھ عرصے سے اس بستی کو کتوں والی سرکارکا علاقہ کہنے لگے ہیں۔؟ ’’کتوں والی سرکار؟‘‘ مجھے تعجب ہوا تھا۔ ’’ہاں ۔‘‘ شاردا نے کہا۔ ’’جھنگ میں رہنے والے ایک طبقے کے خیال میں وہ کوئی بہت پہنچا ہوا بزرگ ہے۔ اس نے ہزاروں کتے پال رکھے ہیں جو اس بستی میں اور اس بستی کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ کوئی اس بزرگ کی اجازت کے بغیر اس بستی میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو کتے اسے بھنبھوڑ کر رکھ دیں۔ ویسے ہزاروں کتوں والی بات مجھے مبالغہ لگتی ہے شاید سو ڈیڑھ سو ہوں، میں تو کبھی ادھر گئی نہیں جو لوگ وہاں بزرگ کی دعائیں لینے جاتے ہیں، وہی کرتے ہیں ہزاروں کتوں کا ذکر!‘‘ ان باتوں سے میرے جسم میں ہلکی سی سننا ہٹ پھیل گئی، مجھے محسوس ہوا تھا کہ میں اپنی منزل ہی کی طرف جارہی ہوں ۔ کوئی تھا جس نے ایک علاقے کو اس طرح محفوظ بنا لیا تھا۔ جعلی پیروں اور بزرگوں کے قصے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتے ہی رہتے ہیں۔ ’’اس آدمی سے ملنے کے لیے تو تمھیں پیدل ہی جانا ہو گا۔‘‘ شاردا نے کہا۔’’اس طرف اونچے نیچے ٹیلے بہت زیادہ ہیں۔ کار سے جانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ ’’اچھا! ‘‘ میں سوچ میں پڑ گئی، پھر پوچھا۔’’ تمہاری حویلی سے اس کا فاصلہ؟‘‘ ’’ دو میل تو ہو گا لیکن ٹیلوں کی وجہ سے وہ مسافت زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘ ’’جاگیرداروں کے پاس گھوڑے تو ضرور ہوتے ہیں۔‘‘ ’’ہاں، ہیں۔ کیا گھوڑے پر جائو گی؟‘‘ شاردا نے حیرت سے کہا۔ ’’سوچوں گی ، پیدل جائوں یا گھوڑے پر!‘‘ ’’گھڑسواری سیکھ لی تم نے؟‘‘ شاردا کے لہجے میں سننی خیز مسرت تھی۔ میں جواب میں صرف ’’ہاں ‘‘ ہی کہہ سکتی تھی۔ یہ تو نہیں بتایا جاسکتا تھا کہ میں ایک حساس ادارے، ایس آئی ایس سے وابستہ ہو چکی تھی اور میری تربیت ایسی ہوئی تھی کہ میں ہوائی جہاز اور ہیلی کوپٹر بھی اڑا سکتی تھی۔ کیا صدف نے گھڑ سواری کو ترجیح دی؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!