جملہ دینی مذہبی جماعتیں ایک بار پھر بلبلا کر اپنی شکست سے ہراساں ہو کے یکجا ہو گئی ہیں۔ کیا الیکشن کے بعد پھر سے بکھرنے کے لیے؟ ہاں صرف الیکشن جیتنا ہی وہ واحد مشن ہے جو پیش نظر ہے۔ اگر امت کی دگرگوں حالت کی درد مندی ہوتی تو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر بار بار اتحاد پارہ پارہ کیوں ہو جاتا۔ ان بزرگوں کو جب اپنی شکست سامنے دکھائی دیتی ہے تو ان حیوانات کی طرح کہ جنگل میں آگ لگے تو اپنے بچائو کے لیے کسی محفوظ پناہ گاہ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ تب نہ بکری کو شیر سے خطرہ رہتا ہے اور نہ شیر بکری کی طرف بھوکی نگاہ ڈالتا ہے۔ فقط اس وقت تک کہ آگ بجھ جائے اور طاقت و ضعف کا کھیل استحصال اور زور زبردستی کا پھر سے شروع ہو جائے۔ کیا یہی معاملہ دینی مذہبی جماعتوں کا نہیں؟ تحریک انصاف کی مقبولیت اور ن لیگ پر جو اس وقت کڑی آزمائش اور پیغمبری ساعتوں کا زمانہ آیا ہے‘ اس سبب سے وہ پھر سے اپنے اختلافات اور فقہی جھگڑوں کو ایک طرف رکھ کر سٹیج پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اپنی یکجہتی کا پھریرا لہرانے قوم کے سامنے آ گئے ہیں لیکن یہ تماشا قوم پہلے بھی دیکھ چکی ہے۔ بھٹو دور اور مشرف دور میں عارضی اور وقتی اتحاد کا یہ کھیل کھیلا جا چکا ہے۔ قوم انجام سے اس اتحاد کے اچھی طرح واقف ہے کسے نہیں معلوم کہ جماعت اسلامی کے سراج الحق کی سادگی اور تقویٰ کا جمعیت کے مولانا فضل الرحمان کی ’’حقیقت پسندی‘‘ اور ’’موقع شناسی‘‘ سے بھلا کیا سمبند ھ۔ کم و بیش کچھ ایسا ہی معاملہ دوسرے مذہبی سیاست دانوں کا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی اقدار کا موجودہ انداز سیاست سے قارورہ ملتا ہی نہیں۔ پچھلے ستر برسوں میں مذہبی جماعتوں کا جو طریقہ سیاست میں اور خود مذہبی معاملات میں روا رہا ہے۔ ان کے آپسی اختلافات جس جس طرح سے کھل کر سامنے آتے رہے ہیں اس بنا پر یہ کہنا کیا غلط ہو گا کہ مذہب کو سیاست میں لا کر اس کی درگت نہ ہی بنائی جاتی تو اچھا تھا۔ عوام جب علماء اور مذہبی سیاست دانوں کے طرز عمل سے مایوس ہوتے ہیں تو اس کا بالواسطہ اثر خود مذہب اور مذہبی شعائر پر بھی پڑتا ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ علماء اور مذہبی شخصیات طلب اقتدار کے لیے امیدواری کے میدان میں خود کو پیش کرنے کے بجائے ایک وقار سے اس سارے عمل سے الگ تھلگ رہ کر رہ نمائی کا منصب سنبھالتے اور رائے سازی میں اپنا وزن استعمال کرتے۔ جب یہ لوگ مذہبی حلیے میں‘ دینی زبان و اصطلاحات کو استعمال کر کے خود کو حکومت کا طلب گار بناتے ہیں تو اپنے لیے خود مزاحمت کا اور مخالفت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں اور پھر ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ مذہبی مسلکوں میں تقسیم ہونے والے اور قوم میں اختلافات مسلک کا بیج بونے والے محض ووٹوں کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے ہیں۔ یہ پہلے سچے دل سے اپنے اختلافات تو دور کر لیں‘ ایک دوسرے کی امامت پر تو متفق و متحد ہو جائیں۔ یہ کیا قوم کو متحد کریں گے جبکہ عام دنوں میں ان کے دل ایک دوسرے سے ٹوٹے اور پھٹے رہتے ہیں۔ اس اعتراض کا کیا جواب ہے مذہبی جماعتوں کے پاس اگر امت کا درد اور عوام سے مخلصی ہوتی تو بار بار متحد ہو کر اپنے ہی ہاتھوں اپنے اتحاد کا گلا کیوں گھونٹیں ؟ علماء اور مذہبی طبقے کا بنیادی فریضہ عوام کی تربیت اور معاشرے میں نیکی اور تعمیری اقدار کو آگے بڑھانا اور برائی و تخریب کی روک تھام کرنا ہے۔ اس بنیادی اور اصل کام کو چھوڑ کر جب وہ عام نام نہاد جمہوری سیاست میں خود کو ملوث کرتے ہیں تو ان کا چلنا اور طرز عمل حتیٰ کہ ان کا بیانیہ بھی عام سیاست دانوں ہی جیسا ہو جاتا ہے وہی الزام تراشی‘ کردار کشی‘ دھمکی اور خبردار کر دینے کا انداز۔ درد مندی اور خیر خواہی‘ بھلائی اور نصیحت کے سارے اوصاف ساری خوبیاں رخصت ہو جاتی ہیں اور کوئی فرق نہیں رہتا ایک عام سیاست داں میں اور مذہبی رہنما میں۔ ہماری مذہبی جماعتیں اب تک اس حقیقت کو نہیں پا سکی ہیں کہ عوام کبھی بھی مذہبی جماعتوں کو ووٹوں کے ذریعے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں لائیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ عوام دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ علماء اور مذہبی شخصیات کا بنیادی فریضہ دینی تعلیم اور شرعی و فقہی مسئلے مسائل کی تعبیر و تشریح ہے۔ سیاست سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر سیاست میں لوگ علماء کو دیکھنا پسند کرتے تو مشہور احراری خطیب عطا اللہ شاہ بخاری کو تحریک پاکستان کے زمانے میں نہ یہ کہنا پڑتا کہ تم لوگ تقریریں میری سنتے ہو اور ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہو۔ اور جب ایک جلسے میں مسلم لیگی کارکنوں نے ’’مولانا محمد علی جناح زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے تو قائد اعظم نے سختی سے انہیں روک دیا اور فرمایا کہ میں مولانا نہیں ہوں۔ میں تو مسلمانوں کا مقدمہ لڑ رہا ہوں۔ مسلمانان عالم کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ پچھلے چودہ پندرہ صدیوں میں علماء کبھی بھی حکومت کے طلب گار نہیں رہے۔انہوں نے کبھی اپنی حکومت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے بادشاہوں اور حکمرانوں کو صرف نصیحتیں کیں اور خلق خدا کی بھلائی اور خیر خواہی کی تلقین کی اور رہے صوفیائے کرام تو انہوں نے تو کبھی دربار کا رخ کرنا پسند نہ کیا۔ خلجی خاندان کے ایک بادشاہ نے جب حضرت نظام الدین اولیاء کو دربار میں تشریف لانے کی درخواست کی تو آپ نے کہلوا بھیجا کہ فقیر ایک گوشے میں بیٹھا بادشاہ کے حق میں دعائیں کرتا رہتا ہے‘ دربار میں آنے سے اسے کیا کام؟ بادشاہ نے یہ سن کر اپنی التجا بھجوائی کہ بادشاہ خود چل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے تو آپ نے سختی سے کہلوایا کہ اس فقیر کے غریب خانے کے دو دروازے ہیں‘ بادشاہ ایک دروازے سے داخل ہو گا تو یہ فقیر دوسرے دروازے سے نکل جائے گا بادشاہ یہ سن کر چپکا ہو رہا۔ تو صوفیائے کرام ہوں یا علمائے حق انہوں نے دربار داری اور حکومتی مناصب و عہدے سے رغبت کا اظہار تو کیا ان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کیا۔ اور یہ واقعہ کسے یاد نہیں کہ جب حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کو بادشاہ نے قاضی کا عہدہ پیش کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کا اہل نہیں۔ بادشاہ نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں کہ اس منصب کے اہل نہیں۔ امام نے برجستہ فرمایا کہ جو جھوٹا ہو وہ قاضی بننے کا اہل کیسے ہو سکتا ہے؟ حالانکہ قاضی یا جج کا منصب سیاسی منصب نہیں ہوتا لیکن امام واقف تھے کہ ان عہدوں کی نزاکتیں کیا ہوتی ہیں؟ اور پھر تدوین فقہ کے عظیم کام کو چھوڑ کر وہ ایک وقتی ذمہ داری کو قبول بھی کیسے کر سکتے تھے؟ اس لیے آج کی عظیم ذمہ داری بھی مذہبی جماعتوں کی عوام کے دکھ سکھ میں بے غرضی سے شریک ہونا‘ ان کے مصائب اور پریشانیوں میں ان کا ساتھ دینا۔ انہیں ظلم و استحصال اور ناانصافی سے نجات دلانا اور ان میں نیکی اور خیر کی اقدار کی اشاعت کرنا‘ انہیں تبلیغ و تلقین کے ذریعے بہتر انسان اور اچھا مسلمان بنانا ہے۔ سیاست دس قسم کے سمجھوتوں کا نام ہے۔ اس میں جھوٹ‘منافقت‘ مصلحت اور موقع پرستی کے بغیر کامیابی کا امکان صفر ہے۔ اس لیے سیاست کو سیاست دانوں ہی پر چھوڑ دینا احسن ہے۔ دین توحید اور بندگی کی طرف بلاتا ہے اور علماء یہی کام سلیقے سے کر لیں تو بہت ہے۔ اپنے اصل فریضے کو چھوڑ کر سیاست کے دلدل میں دھنسنا کون سی عقل مندی ہے۔ ہم نے جب جنرل مشرف کا یہ تبصرہ پڑھا کہ مولانا فضل الرحمن کے وزیر اعظم بنائے جانے کا امکان پیدا ہوا تو جنرل صاحب نے فرمایا کہ مولانا کو اگر وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے تو بیرونی دنیا میں پاکستان کا کیا امیج بنے گا؟ یہ تبصرہ مولانا کے اس شرعی حلیے پر تھا‘ جو جنرل صاحب کے خیال میں عالمی سطح پر ملک کو ایک مولوی اسٹیٹ ہونے کا تاثر دلاتا جو جنرل صاحب کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ علماء کرام کو ان حقائق کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہمارے دل میں علمائے حق کا جو احترام ہے‘ اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ آج بھی ایسے علمائے حق ہیں جو خاموشی سے دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ جو سیاست تو کجا میڈیا پر بھی آنا پسند نہیں کرتے۔ یہی علماء ہیں جو دین کے حقیقی نمائندے ہیں۔ باقی سیاسی علماء نہ سیاست کے نہ دین کے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر شاید اسی کو کہتے ہیں۔