عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کی طاقت ریاست کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، طاقت عریاں ہو کر عوام کے حق رائے دہی کے راستے میں آن کھڑی ہوئی ہے۔ ریاست کے تین ستون عمران خان کو شکست دینے میں مشغول ہیں اور خود ہی شکست خورد ہوتے چلے جا رہے ہیں، کیسے؟ مگر کیسے؟ ریاست کے ڈھانچے میں طاقت کا متوازن استعمال یقنی بنانے کیلئے پوری دنیا میں انتخابات کا طریقہ کار وضع ہے، مادر وطن کے دستور میں بھی اس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، آج تک جس نے بھی اسے پس پشت ڈالنے کی سعی کی، وہ ناکام ہوا، ملک کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد، میجر جنرل سکندر مرزا، ایوب خان سب ہی آخر کار منکر ہونے کی سزا مختلف انداز میں پاتے رہے۔ وقت کی چکی میں سب کا اقتدار پس کر رہ گیا۔ 1973 ء کے آئین کی منظوری کے بعد جنرل ضیاء الحق کو بھی اس حد پھیلانگنے کا احساس ندامت ہونے لگا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 90 کی دہائی میں غلام اسحاق خاں، فاروق خاں لغاری چھیڑ چھاڑ کی کوشش میں گھر گئے، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اسکا جمیازہ بھگتنا پڑا، جنرل جہانگیر کرامت کو صرف تجویز پر مشکلات نے آن گھیرا مگر سیاست کے فریقین کو تاریخ کے سبق سے ہٹ کر گمان تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی اسی چکی میں پیس لیں گے جو 90 کی دہائی میں چلتی رہی، مخترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سہی معنوں میں عمران خان کی سیاسی پذیرائی شروع ہوئی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں وہ مقبول ہو کر ابھرے، انھیں نواز شریف کے متبادل کے طور پر لیا جانے لگا، وہ نواز شریف جو اینٹی بھٹو ووٹ لیتے چلے آ رہے تھے اور مخترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد چونکہ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو ن لیگ کی ایک ذیلی جماعت بنا کر رکھ دیا تھا، پیپلز پارٹی کا نظریاتی ووٹ بینک حد سے زیادہ متاثر ہوگیا۔ اس مقام تک تمام مخالفت سیاسی فریقین اپنے اندازے کے مطابق درست جا رہے تھے کیونکہ ماضی میں بھی اس طرح کی سیاسی سازشوں سے جس کی حکومت جاتی، وہ خاموش ہو کر بیٹھ جاتا لیکن عمران خان کی حکومت جانے کے ملک بھر میں عوام بغیر کسی کال کے سڑکوں پر نکل آئی، سوشل میڈیا پر عوام کا شدید ردعمل آنے لگا، عمران خان جنہوں نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ وہ حکومت سے جانے کے بعد زیادہ خطرناک ہو جائینگے، انھوں نے جمہوری انداز میں بھرپور سیاسی مزاحمت شروع کر دی، جس پر پی ڈی ایم اتحاد نے طاقت کا استعمال کر کے اس عوامی تائید کو روکنا چاہا، 25 مئی 2022ء سے ریاستی ظلم و جبر کا شروع ہونیوالا سلسلہ مقدمات کے اس پہاڑ تک آ پہنچا، جس کا بوجھ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت و کارکنان مقدمات کی بوچھاڑ اور پے در پے گرفتاریوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں، اب معاملہ سپریم کورٹ میں موجود اندرونی تقسیم منظر عام پر آنے اور زبان زد عام ہونے تک پہنچ چکا ہے، قومی اسمبلی کا وہ ایوان جو انتخابات کا مظہر ہوا کرتا ہے، وہ رائے حق دہی کے فیصلوں کے خلاف قرارداد پاس کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ عدالتی اصلاحات بل کے نام پر عدلیہ کے اختیارات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر چکا ہے، ریاست میں آئین کی اہمیت حکمرانوں کی نگاہ میں فقط اتنی رہ چکی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے عدالتی اصلاحات بل کی منظوری سے قبل تمام تر شور و غوغا میں گورنر کے پی کے، کے خط کے جواب میں الیکشن کمیشن نے کے پی کے میں انتخابات کی تاریخ بھی پنجاب کے انتخابات کی تاریخ کے مطابق 8 اکتوبر مقرر کردی، جس پر پورا ملک ششدر رہ گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں تاحال کیس زیر سماعت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مجاز ہے یا نہیں؟ جبکہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے بعد ایک اور صوبے میں انتخابات کی صوبہ پنجاب کے مساوی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔ درحقیقت چند روز میں عدلیہ، قومی اسمبلی سے جس طرح کی خبریں سامنے آئی ہیں، ایک بات بڑی واضح ہوچکی کہ عمران خان کی قیادت میں چلنی والی تحریک حکومت کے حصول سے بہت آگے، اصول کی تحریک بن چکی ہے، جسے تاحال ناکام بنانے میں حالیہ اقتدار کے تمام فریقین اور پورا نظام نہ صرف عیاں ہو چکا ہے بلکہ ان کا دم آخری سانسوں پر ہے، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار اور طاقت کی کسی بھی تحریک کو سیاسی چالوں اور نقشہ گری سے الٹایا جاسکتا ہے، اسکا زور توڑا جاسکتا ہے اور اسکا رخ بھی موڑا جاسکتا ہے مگر اصول اور نظریات کے بل پر چلنے والی تحریکیں اپنا راستہ بنا ہی لیا کرتی ہیں، ایسی تحریکوں کے بارے میں یہ سوال نہیں ہوتا کہ یہ کامیاب ہونگی یا ناکام البتہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کب کامیاب ہونگی، انکی کامیابی کو کتنا وقت درکار ہے، عمران خان کی حقیقی آزادی کی تحریک اس نہیج پر آن پہنچی ہے، لہذا پورا نظام کمربستہ ہو کر انکے مدمقابلہ لا کھڑا کیا گیا ہے جبکہ بات جب اقتدار سے آگے نکل چکی تو عمران خان کی ذات سے بھی آگے قدم بڑھا چکی ہے، حالیہ دنوں میں بھی اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہو رہا کہ نظام کے تمام کل پرزے اپنی فتح کیلئے ہر حد تک جارہے ہیں۔ سیاسی فریقین مایوسی کی آخری حد میں اور غلطی پر غلطی کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت اصول اور نظریات کی اس تحریک سے پیچھے ہونے کیلئے تیار نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی تحریک کامیاب ہوچکی، فقط وقت کا تعین باقی ہے، وہ جو بینائی رکھتے ہیں، جانتے ہیں: عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کی طاقت ریاست کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، طاقت عریاں ہو کر عوام کے حق رائے دہی کے راستے میں آن کھڑی ہوئی ہے۔