ایک بارمیں نے ایک معروف اینکر کو برا بھلا کہہ دیا اور میرے پاس جتنے بھی اینکر پرسن و میڈیا جرنلسٹ گروپ لسٹ میں تھے اُن سب کو بھی اپنا طویل اظہاریہ وجوہ کے ساتھ بذریعہ ای میل بھی ارسال کردیا ۔ واضح رہے کہ مجھے اسی نجی نیوز چینل کے معرف اینکر نے اکسا یا تھا، جس پرمجھے غصہ آیا ۔ 2012کے اس واقعے کو میں اب بھی اُسی طرح یاد کرتا ہوں جیسے یہ کل کی بات ہو۔ مجھے صبح سویرے بنِا ناشتہ اور ناسوار جذباتی طریقے سے نشتر چبھوئے گئے ۔ جذبات میں بھڑک کر راقم نے صبح سات بجکر 33منٹ پرپہلی ای میل کی اور پھر غلطی کا احساس ہوتے ہی اگلے پانچ منٹ بعد ہی جرگہ سے قبل معافی مانگی کہ میرا عمل درست نہیں تھا مجھے آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔متعلقہ اینکر نے کسی حسن ظن سے کام نہیں لیا او ر میرے کرئیر کو شدید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ لندن کے معروف عالمی نشریاتی ادارے کے کئی صحافی نے بھی میری ای میل پرشکوہ کی اورتحمل کا مشورہ دیا ۔ لیکن کیا کرتا ، منہ سے نکلی بات اور ای میل سے نکلا ’ تیر ‘ واپس نہیں آتا ۔قصہ مختصر کہ یہ ایک جذباتی لمحہ تھا کہ جس کے استعمال میںپر مجھے احتیاط برتنی چاہیے تھی اور اس کا افسوس آج بھی ہے ۔ اب اس کی کیا وجوہ تھی اس کے پس منظر میں جانا مناسب نہیں۔ مقصد صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ سیاسی ہو یا صحافی ہو ۔ گر رعونت آجائے تو اَنا کا بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ دور حاضر کے الیکٹرونک چینلز میں بعض تجزیہ نگاروں کے تبصرے سنتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ آیاصحافت سے وابستہ شخصیت مدعو ہیں یا پھر کسی سیاسی جماعت کاجنگجو ۔ پھر بعض سیاسی جماعتوںکے مخصوص لیڈروںکی تقاریر سنتا ہوں تو بیشتر کے اندازِ بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ’ منٹو ‘ زندہ ہوگیا ہے اور ’ اخترشیرانی‘ شعر گوئی کررہا ہے۔ویسے تو ایسی کئی نابغہ روزگار شخصیات سوشل میڈیا میں موجود ہیں کہ ان کی پوسٹ پڑھ کر ڈریسنگ روم میں بھی پسینہ آجاتا ہے ۔ لیکن یقین کریں کہ ان کے لفظوں کے انتخاب میں اعلیٰ ادبی ذوق موجود ہوتا ہے ۔ سعادت حسن منٹو ، میرا جی اور اختر شیرانی کو تو چھوڑیں ، بابا ئے نفسیات ’ سگمنڈ فرائڈ ‘ اور اوشو بھی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آئیں۔ یہ الگ بات ہے ، منٹو ، میرا جی،چغتائی اور شیرانی کے ادب کو فحش گوئی قرار دیا گیا لیکن اب انہیں اردو کا عظیم اثاثہ قرار دیا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ میرے کئی دوسرے احباب کی نگارشات بھی کبھی تاریخی اثاثہ بنجائیں ۔ میں اُن بے ہودہ ہش ٹیگ کی بات نہیں کررہا جس کو دیکھ کر شرمائیں ہنود ۔ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے جب دوسری جماعت کے سیاسی کارکنان کو ’’ گدھا ‘‘ کہا تو بے ساختہ منہ سے برا بھلا نکل نکل گیا ۔مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ میں اس کے لئے کیا لفظ استعمال کروں ۔ لاکھوں افراد ان کو جبراََسنتے تھے ۔ اسی طرح ایک بے روزگار شخص کی ذریعہ آمدنی بنک سے ملنے والے ’’ سود ‘‘ ( منافع) پر تکیہ ہے۔مجھے اس شخص کے ماضی سے کوئی کام نہیں ۔ حال سے بھی کوئی واسطہ نہیں ۔ مستقبل کا بھی نہیں سوچنا ۔ کیونکہ ہر شخص اپنے قول و عمل کا خود ذمے دار ہے۔ مجھے کسی بات کا کوئی اثر اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ خود میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے والا کڑوا آنے پر تھو تھو کرنے لگتا ہے ۔مجھ سے کسی نے پوچھا کہ یہ صاحب پنجابی ہیں یا پٹھان ؟۔میں نے بغیر تامل کے فوراََ جواب دیا ،بناسپتی ۔تاریخی نامور ترین ہستیاں اپنے مخالفین کی بد زبانیاں ، ان کی جسارتوں کو خندہ پیشانی سے جھیل لیتی تھی ۔ شاہ ایران جب کسی ’’ شنہنشاہ‘‘ کو تلاش کرتا تو اُس کی نخوت پر خندہ پیشانی سے جواب دیا جاتا کہ ہمارے یہاں شہنشاہ نہیں ہوا کرتے ،’’ امیر ‘‘ ضرور ہیں اور چشم فلک نے دیکھا کہ 27لاکھ مربع میل کے’’ بلا شرکت غیرے سربراہ ‘‘ حضرت عمرؓکا سرہانا ایک اینٹ تھی جس پر وہ آرام فرما رہے تھے۔کوئی سیاسی یا موجودہ مذہبی شخصیت تو اس عظیم ہستی کے پائوں کی خاک بھی نہیں ہوسکتی۔ رب کائنات کی جانب سے حیاتی میں ہی جنت کی بشارت حاصل کرنے والوں کا موازنہ کسی پڑھے لکھے جاہل سے نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن یقین جانئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ بعض سیاسی افراد جب اپنی دوکان چمکانے کے لئے کبھی خواتین کو رسوا کرتے ، تو کبھی انسانوں کی تذلیل تو کبھی مذہبی ٹچ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اس پر مزید افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا الیکٹرونک میڈیا بھی من و عن آن ائیر کر دیتا ہے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں کہ میڈیا اقدار کا خیال رکھتا تھا ۔ اخلاقیات کا پاس رکھتا تھا ۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔میں نے قلم کی طاقت سے دہشت گردوں کو سرنگوں ہوتے دیکھا۔ لیکن اب قلم کی طاقت کو مفادات کے ترازو میں تولنے کا رواج پروان چڑھنے لگا ہے ۔ میڈیا ، سیاست دانوں کی مجبوری اوراس طوطے میں اِن کی جان ہے ۔ التماس ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر جب اخلاقیات کی حدود پامال کریں تو اس کو حد سے نہ بڑھنے دیں ۔ عوام گالیاں نہیں موقف سننا چاہتی ہیں۔ الزامات نہیں ثبوت پر مبنی حقائق پڑھنا اور دیکھنا چاہتی ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ بس ایک بار ان سب کو لگام دے دیں۔