تخت مری مجبوری ہے بس اک خواب کی دوری ہے سننے والا ہو کوئی آدھی بات بھی پوری ہے یہ خواب کی دوری بھی کیا۔تعبیر خواب سے پہلے نظر آ چکی ہے۔یادش بخیر وہ وقت جب نواز شریف سعودی کے لئے اڑان بھر گئے اور سب مسلم لیگ ن کے فرزانے دیکھتے ہی رہ گئے یاد تو آپ کو آ گیا ہو گا وہی دس سالہ معاہدہ جسے قسطوں میں بعدازاں مان لیا گیا اس سے اگلے روز جو میرا کالم نوائے وقت میں شایع ہوا تھا اس کا عنوان تھا’’بخت کا سکندر اربوں عربوں تک‘‘ اس کے ساتھ ہی میں نے غالب کے مصرعے کو گرہ لگائی تھی: یک بیک قید سے یہ تیرا رہا ہو جانا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا اس کے بعد کے حالات تو آپ کے علم میں ہیں کہ بخت کا سکندر واپس آیا اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنا یہ ایک الگ کہانی ہے کہ پرویز مشرف کے این آر او سے کس کس کو فائدہ ہوا۔ آج میں ایک محاورے کے بارے میں سوچ رہا تھا’’برا وقت اکیلا نہیں آتا‘‘ یعنی کئی مصیبتیں اس کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ مشہور ایسے ہی ہے اب کے تو مجھے لگتا ہے کہ خوشی بھی اکیلی نہیں ہوتی وہ بھی بارات لے کر آتی ہے یا بارات اس کے لئے آتی ہے کچھ بھی کہہ لیں۔ خان صاحب نینواز شریف اور ان کی بیٹی کے سب کس بل نکال دیے بلکہ شہباز شریف کی حس مزاح کہ اسمبلی میں خان صاحب کی موجودگی میں کہا کہ انہیں دیوار میں چنوا دیا گیا ہے یہ کسی تعمیر کے تناظر میں تھا۔بہرحال باپ اور بیٹی جیل میں رہے اور جیسے رہے سب کے علم میں ہے اور پھر کیسے باہر گئے یہ بھی سب کے علم میں ہے۔ ہاں ان کے علم میں نہیں جو حکومت میں تھے۔ رپورٹ بہرحال خان صاحب کے ڈاکٹر فیصل نے بنائی تھی اور دکھائی تھی جو بھی تھا سب کہتے رہے وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کر‘بات آگے بڑھانے سے بیشتر طرحدار شاعر شہزاد قمر کا ایک تازہ شعر: یہ لوگ دیکھ رہے ہیں پھر آسمان کی طرف یہ خلق پھر کسی دیوار سے لگی ہوئی ہے آپ دیکھتے نہیں کہ یہاں وہی چراغ جلے گا جو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرے گا۔ تب ہی اوپر سے منظوری آئے گی۔ اقتدار کے جھولے میں جھولنے والوں کو کیا غرض کہ زمین زادے کس حال میں ہیں کوئی سوچ سکتا تھا کہ پٹرول اڑھائی سو روپے لٹر ملا کرے گا اور بجلی یونٹ پینتیس تک جائے گا۔ مڈل کلاس بھی بلبلا اٹھی اکثر گھروں میں پچاس ہزار بل ہے وہ اپنی ساری توانائیاں بل دینے ہی میں صرف کر دیں گے۔ہائے ہائے کیا وقت آ گیا محلوں اور گھروں میں تاریخی دکھائی دینے لگی کہ بچت میں لوگ یہاں تک آ گئے: دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے ایک دلچسپ بحث یہ چل نکلی ہے کہ یہ سب بقول نواز شریف کے Divine Intervention ہے کہ انہوں نے کہا تھا آپ اسے خدائی مداخلت کہہ لیں پوچھنے والے اداروں کی مداخلت بھی سمجھ رہے ہیں۔ بہرحال قدرت اپنا کردار تو ادا کرتی ہے اور پھر سب کام سیدھے ہوتے جاتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو قدرت کی مداخلت بھی تو اسباب کے ذریعہ ہوتی ہے اس وقت مریم نواز کی رہائی سب سے بڑا ایشو ہے۔یعنی ٹاک آف دی ٹائون اس کے ساتھ مخالفین کی طرف سے ٹارگٹ بھی اسی کو کیا جا رہا ہے۔ پہلے ن لیگ والے آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اب پی ٹی آئی والے۔سچ بہر حال کہیں درمیان میں ہے۔جھوٹ میں بھی بڑا کڑا مقابلہ ہے۔ کوئی کہے تو کیا کہے سب اپنی اپنی جگہ سچے ہی نہیں پوتر بھی لگتے ہیں۔ عدالتیں نیب سے پوچھ رہی ہیں کہ ثبوت لائو ثابت کرو کہ مریم کا ایون فیلڈ کے فلیٹس سے کوئی تعلق ہے نیب کے تو جیسے منہ میں زبان ہی نہیں۔شہزاد اکبر بھی کروڑوں نہیں اربوں روپے ضائع کر کے نکل گیا۔لوٹ مار میں پھر قلفی والا خود بھی تو قلفیاں کھانا شروع کر دیتا ہے۔اب تو ڈار صاحب بھی بڑی روانی سے سچ بول رہے ہیں وہ بھی تو سچے ہی لگتے ہیں کہ ان کے آنے سے ڈالر نیچے تو آیا ہے ڈار اور ڈالر کا کچھ رشتہ ہے۔ہم آ گئے تو گرمئی بازار دیکھنا۔ خان صاحب فرما رہے ہیں کہ مریم کی بریت تاریک دن ہے۔ مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کے رتن کیا کرتے رہے عدالت نے ثبوتوں پر فیصلہ کرنا ہے آپ نے جس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالا پکا نہیں ڈالا آپ کے مشیر وزیر بھی پر لے درجے کے نااہل تھے چند تو چلے ہوئے کارتوس تھے جو کہیں نہیں چلے تو آپ کے اردگرد آ گئے اور الٹے سیدھے مشورے دیتے ہوئے آپ کے پاس اختیار بھی تھا اقتدار بھی وسائل بھی تھے اور اسباب بھی آپ کو یاد دلا دوںکہ خود فواد چودھری نے کہا کہ ہم احتساب کے بیانیے میں فیل ہو چکے۔یہ بھی آپ نے خود فرمایا کہ میں ساڑھے تین سال ان کی مانتا رہا اپنی مانتا تو اس حال کو نہ پہنچتا۔ لگتا ہے کہ اب بازی پلٹ چکی ہے یہ جو پرویز الٰہی بہت خوش فہمی میں ہیں کہ پنجاب ان سے کوئی نہیں لے سکتا مجھے لگتا ہے کہ اب ن لیگ کچھ کارکردگی دکھانے جا رہی ہے غریب ہی نہیں عام آدمی بھی مہنگائی سے اس قدر تنگ ہے کہ بیان سے باہر اگر بجلی اور آٹا سستا ہوتا ہے تو عوام بے چارے اسودگی محسوس کریں گے دوسری طرف خان صاحب کا اپنا آزادی بیانیہ ان کے کھیل کھیلنے کی نذر ہو گیا۔نواز شریف نے باہر بیٹھ کر انتظار کیا ۔ وہ علاج کروانے گئے تھے اور اب علاج کرنے آ رہے ہیں۔ایک چیز تو سامنے آ گئی کہ الٹا سیدھا ہونے یا لال پیلا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔یہ زمانہ دلیل مانگتا ہے۔ انتقام کا کچھ بھی تو نتیجہ نہیں نکلا۔ آخر میں قمر رضا شہزاد کے دو شعر: موت و حیات کا کوئی آئین بھی تو ہو میں لاش ہوں اگر مری تدفین بھی نہ ہو پتھر بھی ماریے مجھے گالی بھی دیجیے میں عشق ہوں یہاں مری تو ہین بھی تو ہو