دوحہ میں امریکی اور افغان عبوری انتظامیہ کے درمیان دو روزہ مذاکرات کے وہی نتائج سامنے آئے جن کی توقع کی جارہی تھی۔ بادی النظر دوحہ مذاکرات میں دونوں فریقین نے اپنے اپنے تحفظات سامنے رکھے تاہم اس کے حل کے لئے دونوں فریقوں کو دوحہ مفاہمتی عمل کے دوران ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد بنانا ہوگا ، معاہدے کے تیسرے مرحلے میں بلیک لسٹ کا خاتمہ ،اقوام متحدہ سے افغان طالبان رہنمائوںکو دہشت گرد لسٹ سے نکالنے کے لئے معاملات کو آگے بڑھانا تھا لیکن افغان عبوری انتظامیہ نے کئی اہم معاملات میں عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے وہ پیش رفت نہیں دکھائی جس کی امید کی جارہی تھی ۔ 1996 سے 2001 تک بزور طاقت اور حالیہ عبوری حکومت کی شکل میں بلا شرکت غیرے 2021-2023میں افغانستان پر حکومت کرنے والے افغان طالبان مکمل خود مختاری کے خواہاں ہیں۔ دوحہ معاہدے سے قبل افغان حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادی ایک جمہوری اور جامع سیاسی نظام کے لیے کام کررہے تھے لیکن امریکی انخلا کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوئی۔ امریکہ، افغان طالبان کی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ،خاص طور پر خواتین اور لڑکیوںکو تعلیم کی بندشوں اور افغانستان میں موجود شدت پسندوں کی موجودگی اور دوحہ معاہدے کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دے رہا ہے، مزید برآں، افغانستان میں چین، روس اور ایران کا اثر نفوذ امریکی پالیسی کے برخلاف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکی وفد ممکنہ طور پر افغان طالبان پر مبینہ دباؤ ڈالے گا، لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا افغان طالبان کوئی بامعنی لچک دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ افغان طالبان سلامتی کونسل رپورٹ میں کالعدم تنظیموں اور القاعدہ کے ساتھ روابط کی تردید کرچکے ہیں تاہم بدستور سخت گیر پالیسی اور مقامی روایات کے مطابق خواتین کو کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے کے لئے مزید مہلت چاہتے ہیں، جبکہ دوحہ معاہدے کرانے والی قوتیں ان حقوق پر اصرار کررہی ہیں۔افغان طالبان نسبتاً ماضی کی انتہائی سخت گیر قدامت پسند حکومت کے مقابلے میں نئی حکومت تھی، اور یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ وہ کتنی مستحکم ہے کیونکہ اندرونی اختلافات، دہشت گرد گروپوں یا دیگر ممالک کی طرف سے بیرونی خطرات کے امکانات کو ختم کرنے میں موجودہ عبوری انتظامیہ کو مسائل کا سامنا ہے۔ان ممکنہ مسائل کے باوجود وفود کی ملاقات صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کا ایک اہم موقع ہے۔ امریکہ افغانستان کے لیے انسانی امداد کا سب سے بڑا مالی امداد دینے والا ملک رہا ہے افغان عبوری انتظامیہ کا مطالبہ ہے کہ اس کے منجمد فنڈ جاری کئے جائیں۔ افغانستان کی معیشت تباہی کی حالت میں ہے، اور یہ ملاقات معیشت کو مستحکم کرنے کے طریقوں پر بات کرنے کا ابتدائی موقع بن سکتی ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان ملاقات کا ممکنہ ایجنڈا ایک پیچیدہ اور چیلنجنگ اقدام ہے۔ امریکی وفد ممکنہ طور پر افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال اور اس ملک کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکنے اور پڑوسی ممالک کے تحفظات پر بات کی گئی۔ افغان طالبان کی وضاحت سے عالمی برداری بالخصوص پڑوسی ممالک مطمئن نہیں اور یہ کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت ترک کرنے کا تاثر نہیں جا رہا۔ افغانستان اب بھی افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، امریکہ افغان طالبان کو منشیات کے کاروبار پر قابو پانے کے لئے باہمی طور پر ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں۔ دوحہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد ہی امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان سفارت کاری کے مستقبل کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتی ہے اور وہ مطالبات جو افغان طالبان اور امریکہ نے ایک دوسرے سے کئے تھے اسے پورا کرنا ناگزیر ہے۔ امریکہ کا موجودہ حالات عبوری انتظامیہ کو تسلیم کرنے اور افغان طالبان کو اقوام متحدہ میں نمائندے بھیجنے پر رضامندی کے کوئی امکانات نہیں ۔ اس کے لئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور مزید تعاون کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ افغان طالبان موجودہ حالات میں چین اور روس سے دوری اختیار نہیں کرسکتا ، چین خطے میں ایک تسلیم قوت ہے اور عالمی طاقت کا استعارہ بن چکا ہے۔ عالمی اثر نفوذ کے لئے ہر قوت خطے میں قدم جمانے کے لئے کوشش کرتا ہے اور امریکہ کی اصل پریشانی اپنی مخالف قوتوں کو قدم جمانے سے روکنے کی کوشش ہے ، سب سے پہلے، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ افغان طالبان کا نظریہ اور حکمت عملی اکثر ان اقدار اور اصولوں سے متصادم رہی ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے برقرار رکھیں۔ اس لیے واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان کسی بھی قسم کی براہ راست بات چیت کو اہم چیلنجز کا مستقل سامنا رہے گا۔ امریکہ افغانستان کے دیگر سٹیک ہولڈرز کو افغان حکومت میں شامل کرانے پر مصر رہے گا کیونکہ یہ دوحہ معاہدے کا اہم ترین حصہ ہے کہ افغانستان کے دیگر سیاسی اور نسلی گروہ عبوری حکومت اور مستقبل کی سیاسی حکومت میں شامل ہوں۔ مزید برآں، چین، پاکستان، ایران اور روس جیسے علاقائی قوتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یقینی طور پر ان ممالک کے افغانستان میں اپنے اپنے مفادات اور ایجنڈے ہیں اور وہ کسی بھی مذاکرات کے نتائج کو متاثر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان مسابقتی مفادات کو متوازن کرنا اور علاقائی اتفاق رائے کو یقینی بنانا کسی بھی امن عمل کی کامیابی کے لیے اہم ہوگا۔ دوحہ حالیہ مذاکرات اس امر کا اظہار ہے کہ امریکہ جن امور کو نامکمل چھوڑ گیا تھا اسے وہ ہی حل کراسکتا ہے۔ افغان عبوری حکومت کو بھی اس وقت عالمی برادری سے تعاون کی نمایاں ضرورت ہے ، انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جس کی وجہ سے خطے میں امن کو خطرات لاحق نہ ہوں اور چار دہائیوں کی جنگ سے متاثرہ افغان عوام کے انسانی حقوق متاثر نہ ہوں اور پڑوسی ممالک بھی امن کے عبوری دور سے فائدہ اٹھا سکیں ۔