جہاں ہزاروں لوگ بے ہنگم طریقے سے اکٹھے ہوں اور کنٹینر پر کھڑے ہوئے لیڈر ان کو جنون اور انقلاب کا سبق پڑھا ئیں وہاں کسی نہ کسی گڑبڑ کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔خود عمران خان2014میں اپنے ہی جلسے میں کرین سے گر کر حادثے کا شکار ہو چکے ہیں ۔اللہ تعالی نے ان کو نئی زندگی دی۔ تحریک انصاف کے ملتان میں منعقدہ جلسے کے دوران بھی ایک خوفناک حادثہ ہوا تھا کئی لوگ زخمی ہوئے ۔دو افراد اس سیاسی شغل کی نذر ہو گئے۔ نواز شریف کے جی ٹی روڈ کے مارچ میں ایک بچہ گاڑی کے نیچے آ گیا تھا اور میں نے اس پر کالم بھی لکھا تھا۔آج کسے وہ یاد ہے ؟ اس لانگ مارچ کے آغاز ہی میں خدشات دل میں جنم لے رہے تھے کہ یہ کیا رنگ دکھائے گا۔خبر نہیں تھی کہ ایک صحافی کی قیمتی جان اس لانگ مارچ کی نذر ہو جائے گی۔ دو دن پہلے سادھوکی میں وہ سانحہ ہوا جس کا گمان میں بھی نہیں تھا۔ ایک چینل میں کام کرنے والی رپورٹر صدف نعیم بریکنگ نیوز کے حصول کی خاطر عمران خان کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی۔ یہ اس کی دفتر کی اسائنمنٹ تھی کہ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کا ایکسکلو سیو انٹرویو لے کر آئے اور اس کے حصول کے لیے وہ عمران خان کے کنٹینر کے ساتھ ساتھ بھاگتی رہی ۔ اس کا خیال تھا کہ اس دوران اسے کنٹینر پر چڑھنے کا موقع مل جائے گا۔ اس اندوہناک سانحے سے چند ثانیے پیشتر کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے خبر کے حصول کے لیے دو جوان بچوں کی ماں رپورٹر صدف نعیم کنٹینر کے ساتھ دیوانہ وار بھاگ رہی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صدف نے اس دوران بھاگتے ہوئے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کی، پاؤں پھسل گیا وہ گری اور کنٹینر کے پہیے اس کی زندگی کو کچلتے ہوئے گزر گئے۔ اس کے آس پاس ہجوم تھا، لوگ تھے، پاکستان کے نعرے ،انقلاب کے نعرے ،ریاست مدینہ کے نعرے لگ رہے تھے۔جوش و جذبے کے ماحول میں صدف کی زندگی موت اوڑھ کے ساکت ہوچکی تھی ۔ایک خاتون صحافی کنٹینر کے نیچے آ کر کچلی گئی۔ چند ہی ثانیوں میں یہ دلخراش خبر ہر چینل پر کہرام مچا رہی تھی۔ خبر کی تلاش میں بھٹکتی ہوئی صدف بالآخر خود خبر بن گئی تھی۔ ایک بریکنگ نیوز کی تلاش میں بھاگتی ہوئی صدف کو کیا خبر تھی کہ اس کا انجام اتنا دلخراش ہونے والا ہے۔ صدف کے مرنے کے بعد اس کی زندگی کی اصل کہانی منظر عام پر آئی کہ اسے کئی مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔صدف جو اپنی زندگی میں وقت پر تنخواہ نہ ملنے کے باعث اس زندگی کے مسائل میں گرفتار رہتی ہوگی مگر مرنے کے بعد صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں نے پچاس پچاس لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے ۔اس کے مسائل کو یہ حکومتیں اس کی زندگی میں ہی سمجھتیںتو اس کو زندگی کے لئے اتنا دکھ نہ جھیلنا پڑتا۔صدف کی زندگی اور موت کی کہانی نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاکے بہت سے صحافیوں کی زندگیوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ کیا ارباب اختیار اس آئینے میں ان صحافیوں کی زندگیوں کے مسائل سمجھنے کی کوشش کریں گے جنہیں پورے مہینے کی مشقت کے بعد چند ہزار تنخواہ کے بھی نہیں ملتے۔ صدف کی دلخراش موت پر مارچ رات روک دیا گیا جو پھر جاری ہے ۔ اس لانگ مارچ کے حوالے سے ڈھیروں خدشات سر اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ عمران خان کی ایک حالیہ ٹویٹ ہے جس کے الفاظ ہیں کہ میں پاکستان میں انقلاب کی راہ دیکھ رہا ہوں یہ انقلاب بیلٹ باکس کے ذریعے ہوگا یا پھر خون ریزی کے ذریعے۔ ایک مقبول سیاسی لیڈر کے یہ الفاظ سمجھ سے بالا ہیں۔خدانخواستہ پاکستان کے حالات کہیں سے بھی ایسے نہیں کہ خوں ریزی سے انقلاب لانے کے لاحاصل خواب دیکھے جائیں۔ کیا قومی سطح کے ایک سیاسی لیڈر کو یہ بات زیب دیتی ہے جو اس وقت خود پنجاب ، خیبر پختونخوا ،کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ امین گنڈا پور کی آڈیو لیکس بھی نظر انداز نہیں کرسکتے جس میں اسلحہ جمع کرنے، ٹکراؤ میں جوابی کارروائی کرنے کے حوالے سے تیاری کی خبریں ہیں۔ ادھر اسلام آباد میں بھی رینجرز اور پولیس کے دستے متوقع معرکے کے لئے ڈرل میں مصروف ہیں۔ جو صورت حال کو نہایت کشیدہ و خطرناک بناتے ہیں۔ایسا نہ پہلے ہوا ہے نہ اب ہوگا کوئی بھی حکومت ہو اس کے سیاسی مخالف اگر مسلح جتھوں کی صورت حملہ آور ہوکر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں گے تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس غیر قانونی اقدام کو ہر صورت روکے۔خدانخواستہ پاکستان قانون اور آئین سے ماورا کوئی بنانا ری پبلک نہیں ہے۔ مانا کہ آئیڈیل صورتحال نہیں لیکن قانون اور آئین تو موجود ہیں ۔ادارے کام کر رہے ہیں، سرحدوں پر فوج چوکس ہے ، ملک بھر میں سیکورٹی ادارے امن قائم رکھنے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ایسے میں کسی خوں ریزی اور کسی خونی انقلاب کی گنجائش نہیں بنتی ۔ خدا کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں۔سنجیدگی، برداشت ، لچک کا مظاہرہ دونوں طرف سے ہونا چاہئے۔ رہی بات صدف کی تو طاقت اور اقتدار کے حصول کے لیے جاری لانگ مارچ میں صدف کی کہانی ایک جملہ معترضہ کی طرح آپڑی تھی۔چند دن اور ہوں گے وہ ہمارے ذہنوں سے محو ہو جائے گی۔ ٭٭٭٭٭